غزہ کی وزارت صحت کے مطابق، غیر قانونی صیہونی ریاست نے جان بوجھ کر خواتین اور بچوں کو نشانہ بنایا، جس کے نتیجے میں اب تک تقریباً 16,500 بچے شہید ہو چکے ہیں اور دسیوں ہزار زخمی ہیں۔ تباہ حال طبی نظام کی وجہ سے زخمی بچوں کی ایک بڑی تعداد کو بیرونِ ملک علاج کی فوری ضرورت ہے، مگر صیہونی فورسز کی جانب سے بارڈر کراسنگ بند کیے جانے کے باعث ان کی زندگی مزید خطرے میں ڈال دی گئی ہے۔
وزارت صحت کے جاری کردہ اعداد و شمار کے مطابق صیہونی دہشتگردی سے شہید بچوں کی عمریں یوں تقسیم کی گئیں: شیر خوار 1 سال سے کم عمر کے 916 بچے، 1 سے 5 سال کے 4,365بچے 6 سے 12 سال کے 6,101 بچے 13 سے 17 سال کے 5,124 نوجوان بچے شامل ہیں۔
رہائشی علاقوں اور پناہ گزین خیموں کو دانستہ نشانہ بنانے کے نتیجے میں سینکڑوں خاندان مکمل طور پر صفحہ ہستی سے مٹ چکے ہیں۔ غزہ کے سرکاری میڈیا دفتر کے مطابق غیر قانونی صیہونی ریاست کی طرف سے جاری اس جارحیت میں اب تک 12,000 سے زائد اجتماعی قتلِ عام کے واقعات پیش آ چکے ہیں، جن میں اکثریت فلسطینی خاندانوں کی تھی۔ تقریباً 2,200 خاندان مکمل طور پر ختم ہو چکے ہیں، جبکہ 5,120 سے زائد خاندانوں میں صرف ایک فرد ہی زندہ بچا ہے۔
فلسطینی وزارت برائے سماجی ترقی کے مطابق، مسلسل بمباری اور گھروں کی تباہی کی وجہ سے یتیم بچوں کی تعداد 25,000 سے بڑھ کر 50,000 ہو گئی ہے۔
صیہونی جارحیت کے باعث غزہ کا پورا معاشرہ شدید انسانی بحران کا شکار ہے۔ جنگ، خوراک کی قلت، اور صحت کے نظام کی بربادی نے معصوم زندگیوں کو ناقابلِ تصور مشکلات میں دھکیل دیا ہے۔ وزارت صحت کے مطابق، جاری جنگ کے دوران 343 نوزائیدہ بچے یا تو بمباری کا شکار ہو کر شہید ہوئے یا صحت کی سہولیات کی عدم دستیابی کے باعث جاں بحق ہوئے۔
فلسطینی شہری دیا عبد ربو نے العربی الجدید کو بتایا کہ شمالی غزہ میں دالو خاندان بمباری کے نتیجے میں مکمل طور پر ختم ہو گیا۔ "کوئی بھی زندہ نہیں بچا۔ صیہونی جارحیت ہم سب کا وجود مٹانا چاہتی ہے، اور دنیا کی خاموشی اس منصوبے کو عملی جامہ پہنا رہی ہے۔”
غزہ کے رہائشی اشرف مطر نے بتایا کہ ان کی بہن کے پانچ بچے نصیرات کیمپ میں ایک حملے میں شہید ہوئے، جبکہ شیر خوار بچہ بمشکل زندہ بچا۔ محمد سمور نے اپنے بھائی کے چار بچوں اور اہلیہ کی شہادت کی خبر دی، جو صیہونی فوج کی جانب سے علاقے خالی کرنے کے حکم کے بعد بھاگتے ہوئے گولہ باری کا شکار ہوئے۔
غزہ کے بیشتر اسپتال بمباری کی زد میں آ کر جزوی یا مکمل طور پر غیر فعال ہو چکے ہیں۔ جنوری 2025 میں کیے گئے جنگ بندی معاہدے کے تحت اسپتالوں کی بحالی کا وعدہ کیا گیا تھا، مگر غیر قانونی صیہونی ریاست نے نہ صرف ان وعدوں کو نظر انداز کیا بلکہ طبی سازوسامان کی ترسیل میں بھی رکاوٹیں ڈال کر مزید تباہی پھیلائی۔
ان سب کے باوجود عالمی برادری کی خاموشی فلسطینی عوام کے لیے سب سے زیادہ تکلیف دہ ہے۔ غیر قانونی صیہونی ریاست کی کھلی جارحیت کے باوجود کوئی ٹھوس بین الاقوامی اقدام اب تک دیکھنے میں نہیں آیا، جبکہ فلسطینی ہر گزرتے دن کے ساتھ ایک نئے المیے سے دوچار ہو رہے ہیں۔