(روز نامہ قدس ۔آنلائن خبر رساں ادارہ) برطانوی نشریاتی ادارے (بی بی سی) کے تحقیقاتی مطالعے کے مطابق، سماجی رابطوں کے معروف پلیٹ فارم فیس بک نے غزہ پر صیہونی ریاستی دہشتگردی اور وحشیانہ بمباری کے دوران فلسطینی نیوز آؤٹ لیٹس کی عوام تک رسائی میں سخت پابندیاں عائد کیں۔
اس تحقیق میں بتایا گیا ہے کہ فلسطین کے غزہ اور مغربی کنارے میں نیوز رومز نے 2023 کے اکتوبر سے عوامی شرکت میں نمایاں کمی محسوس کی۔ اس دوران، فیس بک کی ایک اور زیرملکیت ایپ، انسٹاگرام، بھی فلسطینی صارفین کے کمنٹس میں مزید ترمیم کرنے لگی، جو 2023 کے اکتوبر کے بعد بڑھ گئی۔
فیس بک کی مالک کمپنی "میٹا” نے ان الزامات کی تردید کرتے ہوئے کہا کہ فلسطینی آوازوں کو جان بوجھ کر دبا دینا "غلط” ہے۔ تاہم، حقیقت یہ ہے کہ غزہ میں جنگ کے دوران بہت کم غیر ملکی صحافیوں کو اسرائیلی فوج کی نگرانی میں داخلے کی اجازت دی گئی، جس کے باعث فلسطینی میڈیا کی سماجی میڈیا پر سرگرمیاں عالمی سطح پر بڑھ گئیں۔
فلسطینی میڈیا ادارے جیسے کہ "فلسطین ٹی وی”، "وفا نیوز ایجنسی” اور "الوطن” نے سوشل میڈیا پر عالمی سامعین کے لیے اہم معلومات فراہم کیں، اور فیس بک ان کے لیے ایک اہم ذریعہ بن گیا۔
بی بی سی کی تحقیق نے اس بات کی تصدیق کی کہ غزہ پر حملے کے دوران فلسطینی میڈیا کے فیس بک پیجز کی عوامی شرکت میں 77 فیصد تک کمی واقع ہوئی۔ اس کے برعکس، اسرائیلی میڈیا کے فیس بک پیجز پر عوامی شرکت میں 37 فیصد اضافہ دیکھا گیا۔ فلسطین ٹی وی کے صحافی طارق زیاد نے بتایا کہ "ہمارے پیجز پر تبصرے اور پوسٹس کو کم لوگوں تک پہنچنے دیا گیا، جس کی وجہ سے ہمارا تفاعل تقریباً مکمل طور پر محدود ہو گیا تھا”۔