(روز نامہ قدس ۔آنلائن خبر رساں ادارہ) حکومتِ غزہ کے میڈیا دفتر کی جانب سے جاری کردہ بیان نمبر 797 میں انکشاف کیا گیا ہے کہ اسرائیلی افواج کی جانب سے جاری نسل کشی اور نسلی تطہیر کی جنگ کو 560 دن مکمل ہو چکے ہیں، جس کے دوران انسانی المیے کی شدت ہر گزرتے دن کے ساتھ بڑھتی جا رہی ہے۔
اہم اعداد و شمار اور ہولناک حقائق درج ذیل ہیں:
12,000 سے زائد اجتماعی قتل کی وارداتیں ریکارڈ کی گئیں۔62,000 سے زائد افراد شہید یا لاپتہ، جن میں سے 11,000 افراد تاحال ملبے تلے یا نامعلوم انجام کا شکار ہیں۔
51,065 شہداء کی لاشیں اسپتالوں تک پہنچائی گئیں (وزارت صحت)۔ 2,172 فلسطینی خاندان مکمل طور پر ختم کر دیے گئے۔ 5,070 سے زائد خاندانوں میں صرف ایک فرد بچ پایا، جبکہ دیگر تمام شہید ہوئے۔
شہداء کی تقسیم:
18,000 سے زائد بچے شہید کیے گئے۔، 281 نومولود جنگ کے دوران پیدا ہو کر شہید ہوئے۔، 892 شیرخوار بچے اپنی پہلی سالگرہ سے قبل شہید ہو گئے۔12,400 سے زائد خواتین شہید ہوئیں۔1,402 طبی عملے کے افراد، 113 ریسکیو اہلکار، اور 211 صحافی شہید کیے گئے۔748 پولیس و سیکیورٹی اہلکار شہید، جن پر 157 مرتبہ براہ راست حملے کیے گئے۔
طبی و انسانی بحران:
116,505 زخمی، جن میں 17,000 کو طویل بحالی کی ضرورت ہے۔4,700 افراد کے اعضا کاٹنے پڑے، جن میں 18% بچے شامل ہیں۔3,500 بچے غذائی قلت کا شکار اور موت کے دہانے پر ہیں۔22,000 مریض بیرونِ ملک علاج کے منتظر، مگر اسرائیل نے سفر پر پابندی لگا رکھی ہے۔
خواتین و بچوں پر اثرات:
39,400 بچے والدین میں سے کسی ایک یا دونوں سے محروم ہو چکے ہیں۔14,500 سے زائد خواتین بیوگی کا سامنا کر رہی ہیں۔60,000 حاملہ خواتین طبی سہولیات سے محروم اور خطرے سے دوچار ہیں۔
تعلیم پر حملہ:
13,000 طلباء و طالبات شہید۔، 785,000 سے زائد بچے تعلیمی عمل سے محروم۔، 142 تعلیمی ادارے مکمل طور پر تباہ، 364 جزوی نقصان کا شکار۔
پناہ گزینوں کی صورتحال:
2 ملین سے زائد افراد بے گھر و نازح۔، 111,000 خیمے بوسیدہ ہو چکے ہیں۔، 280,000 خاندان رہائش کے منتظر۔232 کیمپ اور 37 فوڈ سینٹرز پر بمباری کی گئی۔
دیگر تفصیلات:
7 اجتماعی قبریں اسپتالوں کے اندر قائم، جن سے 529 لاشیں نکالی گئیں۔6,633 افراد گرفتار، جن میں 362 طبی اہلکار، 48 صحافی اور 26 ریسکیو ورکرز شامل ہیں۔28 تکیے (فری کچن) اور 37 فوڈ ڈسٹری بیوشن مراکز کو تباہ کیا گیا تاکہ بھوک کو بطور ہتھیار استعمال کیا جا سکے۔