(روزنامہ قدس ـ آنلائن خبر رساں ادارہ)قابض اسرائیلی فوج کے ایک ریزرو فوجی نے گذشتہ روز شمالی فلسطین کے مقبوضہ علاقے میں واقع سوئسریہ جنگل میں خودکشی کر لی۔ یہ اقدام اس کی حالیہ غزہ میں جاری خونریز جنگ سے واپسی کے بعد سامنے آیا، جبکہ اس کی یونٹ اب بھی وہاں جارحانہ کارروائیوں میں مصروف ہے۔
عبرانی اخبار ہارٹز کے مطابق خودکشی کرنے والا یہ فوجی 28 برس کا تھا اور فوجی پولیس کا کہنا ہے کہ اس نے دستی بم پھاڑ کر اپنی زندگی کا خاتمہ کیا۔
گذشتہ چند دنوں میں اسرائیلی میڈیا نے غیر سرکاری اعداد و شمار جاری کرتے ہوئے بتایا ہے کہ رواں سال اب تک کم از کم 18 فوجی خودکشی کر چکے ہیں جبکہ سنہ2024ء میں یہ تعداد 21 رہی۔
عبرانی ذرائع ابلاغ نے اس سے قبل انکشاف کیا تھا کہ 7 اکتوبر سنہ2023ء کو غزہ کے خلاف قابض اسرائیل کی نسل کش جنگ کے آغاز سے لے کر اب تک کم از کم 48 فوجی خودکشی کر چکے ہیں۔
آج جمعہ کے روز اسرائیلی سرکاری نشریاتی ادارے نے فوجی تحقیقات کے حوالے سے بتایا کہ زیادہ تر فوجیوں کی خودکشی کا تعلق غزہ کی جنگ اور محاذ پر طویل عرصے تک رہنے کی اذیت سے ہے۔
ہآرٹز کا کہنا ہے کہ خودکشی کرنے والوں میں زیادہ تر وہ ہیں جو ریزرو ڈیوٹی کے دوران عملی لڑائی میں شریک تھے۔ اسرائیلی فوجی ذرائع کا اعتراف ہے کہ یہ فوجی میدان جنگ میں ایسے مناظر اور حالات سے گزرے جنہوں نے ان کی ذہنی حالت کو شدید متاثر کیا۔
خودکشی کے یہ واقعات فوجی کیمپوں کے اندر اور باہر مسلسل بڑھ رہے ہیں جبکہ غزہ میں دوبارہ بھیجے جانے سے انکار کرنے والے فوجیوں کی تعداد میں بھی اضافہ ہو رہا ہے۔
اسی تناظر میں، یدیعوت آحارونوت نے لکھا ہے کہ اسرائیلی وزارت جنگ کے تحت بحالی کا محکمہ اس وقت تقریباً 80 ہزار زخمی فوجیوں کا علاج کر رہا ہے جن میں سے 26 ہزار شدید نفسیاتی امراض میں مبتلا ہیں۔
اس محکمے کا کہنا ہے کہ فوجیوں میں بڑھتی معذوری اور خودکشی کے واقعات اسرائیلی فوج اور سماج کے لیے ایک بڑا قومی بحران ہیں۔ محکمہ اپنی سالانہ بجٹ کا نصف سے زیادہ یعنی تقریباً 4.2 ارب شیکل (تقریباً 1.2 ارب ڈالر) نفسیاتی مریضوں کے علاج پر خرچ کر رہا ہے۔
اسرائیلی اخبار معاریو میں شائع ایک مضمون میں کالم نگار اور تجزیہ کار افرائیم گانور نے "جنگ کے بعد کا ذہنی صدمہ” ایک "خاموش وبا” قرار دیتے ہوئے کہا کہ یہ مرض آہستہ آہستہ اسرائیلی معاشرے کی گہرائیوں میں سرایت کر رہا ہے اور جنگی کارروائیوں کے رکنے اور توپوں کی آوازیں تھمنے کے بعد یہ مسئلہ اور بھی زیادہ خطرناک اور واضح ہو جائے گا۔
یاد رہے کہ 7 اکتوبر سنہ2023ء سے امریکہ کی پشت پناہی میں قابض اسرائیل غزہ پر وحشیانہ نسل کشی کی جنگ مسلط کیے ہوئے ہے جس میں اب تک 2 لاکھ 11 ہزار سے زائد فلسطینی شہید اور زخمی ہو چکے ہیں، جن میں اکثریت بچے اور خواتین ہیں۔ اس کے علاوہ لاکھوں بے گھر ہو چکے ہیں اور غزہ کو ایسی بدترین انسانی تباہی کا سامنا ہے جو دوسری جنگ عظیم کے بعد دنیا نے نہیں دیکھی۔