(روز نامہ قدس ۔آنلائن خبر رساں ادارہ) غیر قانونی صیہونی خفیہ ادارے موساد کے سابق نائب سربراہ نے قطر کے نشریاتی ادارے الجزیرہ کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا ہے کہ صیہونی ریاست اسرائیل میں فوجی احکامات ماننے سے انکار سامنے آ رہا ہے، اور اب یہ واضح ہو چکا ہے کہ جنگ کا خاتمہ اور قیدیوں کی واپسی نہ صرف اسرائیل بلکہ حماس کے لیے بھی مفاد میں ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ غزہ میں جو کچھ ہو رہا ہے، اس کی ذمہ داری حماس پر عائد ہوتی ہے، نہ کہ اسرائیل پر۔ ان کے بقول، صیہونی ریاست اسرائیل کو حماس کو غیر مسلح کرنے پر مجبور کیا گیا ہے اور حماس کو یہ حقیقت تسلیم کرنی چاہیے کہ یہ عمل کسی معاہدے کے تحت ہونا چاہیے، نہ کہ طاقت کے ذریعے۔
موساد کے سابق نائب سربراہ نے یہ بھی کہا کہ عوامی سطح پر احتجاجی دستخطی مہمات اس بات کی غماز ہیں کہ جنگ کے خاتمے اور قیدیوں کی واپسی کو اولین ترجیح دی جا رہی ہے۔ انہوں نے زور دیا کہ "ہم یہ یقین رکھتے ہیں کہ کوئی بھی اسرائیلی قیدی دشمن کے پاس نہیں چھوڑا جانا چاہیے”۔
ان کا کہنا تھا کہ جنگ اسی صورت ختم ہو سکتی ہے جب دونوں فریق اپنے اپنے اسیران کو واپس لے لیں۔
غیر قانونی صیہونی ریاست اسرائیل کے سابق نائب سربراہ موساد اور فوج کی شمالی کمان کے سابق سربراہ عمیرام لیفین نے قطر کے نشریاتی ادارے الجزیرہ کو دیے گئے ایک خصوصی انٹرویو میں انکشاف کیا ہے کہ صیہونی ریاست کے اندر بڑھتا ہوا معاشی دباؤ، اہل خانہ سے طویل دوری اور سیاسی قیادت کی تقسیم کے باعث فوجی احکامات ماننے سے انکار کا رجحان تیزی سے بڑھ رہا ہے، خاص طور پر ریزرو فوجیوں میں۔
لیفین کا کہنا تھا کہ اسرائیلی معاشرے میں یہ بات شدت سے ابھر رہی ہے کہ موجودہ جنگ کو ختم کیا جائے اور غزہ میں قید تمام صیہونی قیدیوں کو فوری طور پر واپس لایا جائے۔ انہوں نے کہا:
"اسرائیلی فوج اور قوم کے لیے قیدیوں کی واپسی ایک مقدس قدر ہے۔ یہ کسی قیمت کا تقاضا نہیں بلکہ ہر جنگ کا فطری اختتام ہوتا ہے۔”
ان کے مطابق، حالیہ دنوں میں دستخطی احتجاجی مہمات میں عوام اور سابق فوجیوں کی بڑی تعداد نے حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ جنگ کا خاتمہ کیا جائے اور تمام مغوی صیہونی افراد کو واپس لایا جائے۔ انہوں نے واضح کیا کہ اس مطالبے میں وہ لوگ بھی شامل ہیں جو ماضی میں فوجی خدمات انجام دے چکے ہیں۔
لیفین نے مزید کہا کہ ریزرو فوجی، جو صیہونی افواج کا ایک بڑا حصہ ہیں، اپنی خاندانی اور معاشی ذمہ داریوں کے باعث جنگی احکامات کو مزید برداشت کرنے کے قابل نہیں رہے۔
"یہ ممکن ہے کہ آنے والے دنوں میں فوجی احکامات سے انکار کی یہ لہر شدت اختیار کرے۔”
انہوں نے کہا کہ روایتی طور پر جنگوں کا اختتام اسی وقت ہوتا ہے جب دونوں فریق اپنے اپنے اسیران کو واپس حاصل کرتے ہیں۔ لہٰذا، اسرائیل کو چاہیے کہ وہ فلسطینی قیدیوں کو رہا کرے تاکہ غزہ میں قید صیہونی قیدیوں کی واپسی ممکن بن سکے۔
لیفین نے اعتراف کیا کہ اس سمت میں کوئی پیش رفت نہ ہونے کی وجہ خود صیہونی حکومت کے اندرونی اختلافات ہیں۔ انہوں نے کہا کہ کابینہ میں ایسے وزراء موجود ہیں جو جنگ کے جاری رہنے کے حامی ہیں اور چاہتے ہیں کہ حماس کو مکمل طور پر جھکنے پر مجبور کیا جائے۔
“حماس کو غیر مسلح کرنا اسرائیل کی مجبوری ہے، لیکن یہ عمل کسی معاہدے کے ذریعے ہونا چاہیے، زبردستی نہیں۔” — لیفین
انہوں نے یہ بھی دعویٰ کیا کہ غزہ کی صورتحال کی اصل ذمہ دار حماس ہے، نہ کہ صیہونی ریاست۔