(روز نامہ قدس ۔آنلائن خبر رساں ادارہ ) تھیوڈور ہرزل نامی یورپی یہودی کو بانیان اسرائیل نے اپنا اور اپنی جعلی ریاست کا روحانی اور نظریاتی ابا قرار دیا۔ اسی کی تصویر کے نیچے کھڑے ہوکر ڈیوڈ بن گوریان نے اسرائیل کے قیام کا اعلان کیا۔ وہ ورلڈ زایونسٹ آرگنائزیشن کا پہلا صدر تھا۔
گریٹر اسرائیل منصوبہ سے متعلق حقائق
اس تھیوڈور ہرزل نامی یورپی یہودی نے جو کچھ کہا وہ تاریخ کا حصہ بن گیا۔ اس نے یہودی ریاست کے لیے ارجنٹینا اور فلسطین کے نام مثال کے طور پر تجویز کیے اور ان میں فلسطین کو ترجیح دی۔ فلسطین کو ہرزل نے ہمیشہ یاد رہنے والا تاریخی گھر قرار دیا۔ ہرزل نے کہا اگر سلطنت عثمانیہ کاسلطان فلسطین ہمیں دے دیتا تو ہم اس کے عوض پورے ترکی کو درکارمالیات فراہم کرسکتے تھے۔
یہودی ریاست ایشیاء کے خلاف یورپ کا مورچہ
ہرزل نے فلسطین میں یہودی ریاست کو ایشیاء کے خلاف یورپ کا مورچہ (فصیل) قراردیا۔ ہرزل نے یورپ اور خود کو تمدن کی علامت کی حیثیت سے ایشیائی بربریت کا مخالف قرار دیا۔ حالانکہ بربر نسل بھی افریقی براعظم سے تعلق رکھتی ہے اور انکی سرزمین پر بھی یورپی سامراج نے ناجائز قبضہ کررکھا تھا۔
یہودیوں کو یورپی ممالک اور کرسچن آبادی سے کوئی شکایت نہیں تھی
ہرزل کے الفاظ یہ سمجھنے کے لیے کافی ہیں کہ یہودیوں کو یورپی ممالک اور کرسچن آبادی سے کوئی شکایت نہیں تھی بلکہ وہ تو خوشی خوشی یہودیوں کو انکا اتحادی اور انکا دفاعی مورچہ قرار دے چکا تھا۔ سال 1896ع میں یہودی ریاست کے عنوان سے انکی تصنیف آئی جس کے باب دوم میں یہ نکات تحریر ہیں جو یہاں پیش ہوئے۔ یہی نکات اسرائیلی پارلیمنٹ کی پبلیکشنز میں بھی موجود ہیں۔
گریٹر اسرائیل یعنی ارض اسرائیل ھا شلیما کا نظریہ
گلوبل سیکیورٹی ڈاٹ آرگ کا دعویٰ ہے کہ تھیوڈور ہرزل نے مصر کے پانی سے فرات تک کے علاقے کو یہودی ریاست کا علاقہ کہا ہے۔ اس ویب سائٹ کا دعویٰ ہے کہ یہ علاقہ ہرزل کی کمپلیٹ ڈائریز والیم 2کے صفحہ 711پر بیان کیا گیا ہے۔
البتہ جیوش ورچوئل لائبریری کے ریکارڈ میں ورلڈ زایونسٹ آرگنائزیشن کا پیش کردہ سال 1919ع کا وہ نقشہ موجود ہے جس میں برطانوی مینڈیٹ کے تحت جو علاقے ہیں ان میں فلسطین کی حدود کو سرخ لکیروں کے ذریعے نمایاں کیا گیا ہے۔ لائبریری ریکارڈ کے مطابق یہ وہ علاقہ ہے جس پر عالمی صہیونی تنظیم (ورلڈ زایونسٹ آرگنائزیشن کا دعویٰ ہے کہ یہ فلسطین کی حدود میں شامل ہیں)۔
بیت المقدس تاریخ کے آئینے میں
یہ نقشہ بعینہ وہی نقشہ ہے جو بعد میں موتمر عالم اسلامی (سعودی عرب) نے بھی یہودی پروٹوکولز کے ترجمے پر مشتمل کتاب میں شایع کیا۔ سال 1970ع میں موتمر عالم اسلامی کی جانب سے کراچی میں بھی اسکا انگریزی ترجمہ اسی نقشے کے بلیک اینڈ وائٹ عکس کے ساتھ شایع کیا گیا تھا۔
یہودیوں نے اپنی ریاست کے حصے میں مدینہ تک شمار کیا ہے
اس نقشے میں حجاز مقدس میں مدینہ تک یہودیوں نے اپنی ریاست کے حصے میں شمار کیا ہے۔ نیل تا فرات ہی نہیں بلکہ نیل و فرات تا مدینہ۔ یعنی صرف موجودہ فلسطین اور موجودہ اردن ہی نہیں بلکہ موجودہ کویت، سعودی عرب، مصر، عراق، لبنان حتیٰ ترکی کی سرحد تک شام کے علاقے اس میں شامل ہیں۔
کرسچن کو بھی بائبل کا ریفرنس دے کر گمراہ کیا
اور اس دعوے کے لیے بائبل میں بیان کردہ زمین کا حوالہ دیا جاتا ہے۔ گریٹر اسرائیل سے متعلق حقائق میں ہم تاریخی حقیقت بیان کرچکے کہ جغرافیائی قومیت کے لحاظ سے خود حضرت ابراہیم علیہ السلام اور انکے بیٹے اور پوتے، پڑپوتے اور انکی اگلی چار صدیوں تک کی نسلوں میں کسی کی بھی جغرافیائی شناخت نہ تو یہودی تھی اور نہ ہی اسرائیلی۔
بنی اسرائیل اس وجہ سے تھے کہ حضرت یعقوب علیہ السلام کے لقب کی وجہ سے انکے بارہ بیٹوں کو بنی اسرائیل کہا گیا۔ جبکہ حضرت یعقوب علیہ السلام کی پیدائش سرزمین فلسطین میں ہوئی جس کا ایک نام کنعان بھی تھا۔ بنی اسرائیل کسی جغرافیائی مملکت یا حدود کی شناخت نہیں تھی۔
اسرائیل نام کی جعلی یہودی ریاست کی حمایت
نسلی یہودی دعوے پر انہوں نے کرسچن انسانوں کو بھی بائبل کا ریفرنس دے کر گمراہ کیا ہے۔ بائبل میں درج کوئی بات اگردنیا میں کسی نیشن اسٹیٹ کے قیام کے لیے دلیل بن سکتی ہے تو پھر قرآن شریف کی آیات کو بھی دلیل کے طور پر ان سبھی کو ماننا ہوگا جو اسرائیل نام کی جعلی یہودی ریاست کی حمایت کرتے ہیں۔
بائبل سے متعلق اسلامی نظریہ
یہاں یہ بھی یاد رہے کہ بائبل سے متعلق اسلامی نظریہ بھی واضح ہے، یعنی موجودہ بائبل اپنی اصل حالت میں نہیں بلکہ تحریف شدہ ہے۔ دوسری طرف قرآن اہل کتاب کی اقسام بیان کرچکا ہے۔
اہل کتاب یہودیوں کو قرآن کی آیت میں کافر قرار دیا گیا
اہل کتاب میں سبھی موحد نہیں ہیں بلکہ سورہ حشرمیں بہت واضح آیا کہ اہل کتاب یہودیوں کو قرآن کی آیت میں کافر قرار دیا گیا ہے۔ سورہ جمعہ سمیت قرآن میں یہودیوں سے متعلق بہت واضح نشانیاں بیان کی جاچکیں۔ بائبل کا ریفرنس نہ ماننے کی ایک اور وجہ یہ کہ بائبل میں انبیائے خد۱ کو گناہ و خطا میں ملوث بھی بیان کیا گیا ہے جبکہ مسلمان انبیائے خدا علیہم السلام کو معصوم مانتے ہیں۔
ساؤل پہلا عبرانی یہودی بادشاہ
اس کے باوجود، یہودی ریاست یا موجودہ اسرائیل کے دفاع میں بائبل کا ریفرنس دینے والے جس شخصیت کو اسرائیل نامی یہودی ریاست کا بانی قرار دیتے ہیں اسکا نام ساؤل ہے۔ اسرائیلی حکومت کی بیان کردہ تاریخ میں ساؤل پہلا عبرانی یہودی بادشاہ یا اسرائیل کا بانی تھا۔ بائبل میں سیموئیل اول میں ساؤل کا تذکرہ ہوا۔
ساؤل نے خدا کی نافرمانی کی
دلچسپ نکتہ یہ ہے کہ بائبل میں عنوان سیموئیل کے مطابق ساؤل نے خدا کی نافرمانی کی، اسی لیے اسے خدا نے معزول بھی کیا اور معتوب بھی۔ دوسری حقیقت یہ کہ حتیٰ ساؤل نامی بادشاہ جس علاقے کا حکمران تھا، اس میں بیت المقدس یعنی یروشلم شامل ہی نہیں تھا چہ جائیکہ دارالحکومت۔
اللہ اور انبیاء کی شان اقدس کے خلاف کفریہ باتیں
گوکہ یہودی صرف بائبل کے عہد نامہ قدیمی کو مانتے ہیں جبکہ کرسچن عہدنامہ جدید تک مانتے ہیں۔ لیکن سیموئیل کی اس داستان میں اللہ تعالیٰ تک پر سنگین الزامات لگائے گئے ہیں۔ بائبل میں اللہ اور انبیاء کی شان اقدس کے خلاف ایسی ہی کفریہ باتوں کی وجہ سے مسلمان بائبل کو نہیں مانتے۔
حضرت سلیمان علیہ السلام سے متعلق بھی کفریہ کلمات
حضرت داؤد علیہ السلام اورانکے بیٹے حضرت سلیمان علیہ السلام کو مسلمان انبیاء کی حیثیت سے مانتے ہیں۔ یہ دونوں بھی فلسطینی علاقے کے حکمران رہے۔ البتہ بائبل کے باب سلاطین میں حضرت سلیمان علیہ السلام سے متعلق بھی کفریہ کلمات لکھے ہیں جسے ہم نقل نہیں کررہے۔ انکے بعد بائبل کے مطابق انکے بیٹے کے دور ہی میں اس مرکزی حکومت کا خاتمہ ہوگیا تھا۔
بائبل کی تاریخ بھی یہودی نسلی دعویٰ کو ثابت نہیں کرتی
تو بائبل کی تاریخ بھی اس سرزمین پر یہودی نسلی دعویٰ کو ثابت نہیں کرتی۔ بلکہ یہ تو الٹا انبیائے خدا علیہم السلام پر بھی خدا کی نافرمانی کا کفریہ الزام لگاتی ہے۔ اس لیے اسرائیل کا یہ دعویٰ بھی بے بنیاد ہے۔
فلسطین چھوڑ کرد یگر ممالک جاکر آباد ہوجانا اپنی چوائس پر
اسرائیل کے قیام کے لیے جو دعویٰ جلاوطنی کا کیا گیا، اس سے متعلق بھی یاد رہے کہ بائبل کے مطابق انہیں نافرمانی کی سزا دی جاتی رہی۔ فلسطین چھوڑ کرد یگر ممالک جاکر آباد ہوجانا انکے اجداد کی اپنی چوائس پر مبنی فیصلہ تھا۔
آسٹریا کے تھیوڈور ہرزل اور پولینڈ کے ڈیوڈ بن گوریان کے اعلانات
آسٹریا کے تھیوڈور ہرزل اور پولینڈ کے ڈیوڈ بن گوریان کے اعلانات فلسطین میں غیر ملکی یہودیوں کی مملکت کا جواز نہیں بن سکتے۔ حتیٰ کہ فلسطینی یہودی بھی چونکہ انتہائی قلیل تعداد میں تھے، انہیں بھی جمہوری اصولوں کے تحت یہاں یہودی نسلی ریاست بنانے کا کوئی حق نہیں تھا۔
گریٹر اسرائیل یعنی ارض اسرائیل ھا شلیما کا نظریہ
مستند ترین حقائق کی بنیاد پر باضمیر اور منصف مزاج انسان اسرائیل پر یہودی نسلی دعوے کو جھوٹا دعویٰ سمجھ کر مسترد کرتے آرہے ہیں۔ حتیٰ کہ باضمیر یہودی تو اسرائیل کی نسل پرستی کی وجہ سے خود کو یہودی کہلوانا چھوڑ نے لگے ہیں۔
تحریر : غلام حسین
بشکریہ: فلسطین فاؤنڈیشن پاکستان