(روز نامہ قدس ۔آن لائن خبر رساں ادارہ)رمضان المبارک کے آخری عشرے میں سعودی عرب کے فرمانروا شاہ سلمان بن عبدالعزیز نے مکہ مکرمہ میں عرب اور مُسلم دنیا کی 3 اہم کانفرنس طلب کیں۔ ان میں خلیج تعاون کونسل اور عرب لیگ کے سربراہ اجلاسوں کو ہنگامی قرار دیا گیا جبکہ اسلامی تعاون تنظیم کے سربراہ اجلاس کو معمول کی کانفرنس بتایا گیا۔
1986ء میں خادم الحرمین شریفین کا لقب اختیار کرنے والے سعودی شاہ فہد نے مقامات مقدسہ کو شاہی خاندان کے اقتدار اور سیاست کے لیے استعمال کیا۔ اب شاہ سلمان نے مسلم دنیا کے لیے اہم ترین مہینے رمضان المبارک میں مکہ مکرمہ میں 3 اہم سیاسی اجلاس بلائے۔ عرب اور خلیجی ممالک کے ہنگامی اجلاس ایران کی مبینہ سبوتاژ کی کارروائیوں پر طلب کیے گئے جبکہ اسلامی سربراہ کانفرنس کے اعلامیہ میں بھی ایرانی کارروائیوں کی سخت مذمت شامل کی گئی۔
سعودی شاہ سلمان کے طلب کردہ 3 اجلاسوں کے ساتھ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے داماد اور مشرق وسطیٰ پر ان کے مشیر جارڈ کشنر، مشرق وسطیٰ کے لیے امریکی صدر کے خصوصی مندوب جیسن گرین بلاٹ بھی خطے کے دورے پر تھے۔ ان اجلاسوں سے پہلے امریکا نے بحرین میں فلسطین اسرائیل تنازع کے حل کے لیے مجوزہ ڈیل کے اقتصادی پہلو پر کانفرنس کا بھی اعلان کر رکھا تھا۔ یہ کانفرنس آئندہ ماہ کی 25، 26 تاریخ کو ہوگی۔
مسلم دنیا کے 3 اہم اجلاس اور اس کے ساتھ امریکا کی خطے میں بھرپور سفارتکاری کے کئی عوامل ہیں، تاہم سب سے بڑا عنصر فلسطین کا قضیہ ہے۔ امریکی صدر اس تنازع کے حل کے لیے ایک منصوبہ ترتیب دے چکے ہیں اور اسے ’ڈیل آف دی سنچری‘ کا نام دیتے ہیں۔ صدر ٹرمپ کے داماد اس ڈیل کے آرکیٹیکٹ ہیں۔
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اسرائیل میں نئی حکومت کی تشکیل سے پہلے ڈیل آف دی سنچری کو پٹاری سے نہیں نکالنا چاہتے لیکن اس ڈیل کی تفصیلات اسرائیلی اخبارات میں لیکس کی شکل میں شائع ہوچکی ہیں۔
اسرائیلی اخبارات میں شائع تفصیلات کے مطابق:
اسرائیل، پی ایل او اور حماس کے درمیان سہہ فریقی معاہدے کے نتیجے میں فلسطینی ریاست قائم کی جائے گی جسے نیو فلسطین کا نام دیا جائے گا۔
یہ ریاست مقبوضہ مغربی کنارے اور غزہ پر مشتمل ہوگی تاہم اس میں یہودی بستیاں شامل نہیں ہوں گی۔
اس ریاست کا دارالحکومت بیت المقدس سے متصل علاقہ ابو دیس ہوگا۔
اسرائیل معاہدے کے تحت 3 سال کے عرصے میں فلسطینی قیدیوں کو رہا کرے گا۔
غزہ اور مغربی کنارے میں بسائی گئی یہودی بستیاں اسرائیل کا حصہ رہیں گی۔
بیت المقدس کو تقسیم نہیں کیا جائے گا بلکہ اسرائیل اور نیو فلسطین دونوں اسے شیئر کریں گے اور انتظام اسرائیل کے ہاتھ میں ہوگا۔
بیت المقدس میں رہنے والے فلسطینی نئی فلسطینی ریاست کے شہری ہوں گے اور یہودی اسرائیلیوں کو بیت المقدس میں فلسطینیوں کی جائیداد خریدنے کی اجازت نہیں ہوگی۔
غزہ کے رہائشیوں کے لیے مصر ایئرپورٹ، فیکٹریاں تعمیر کرے گا اور زرعی سہولیات مہیا کی جائیں گی۔
اس کاروباری علاقے میں فلسطینیوں کو رہائش رکھنے کی اجازت نہیں ہوگی۔
غزہ اور مغربی کنارے کو ملانے کے لیے ہائی وے تعمیر کی جائے گی۔
امریکا، یورپی یونین اور خلیجی ریاستیں اس منصوبے اور نئی ریاست کو 5 سال تک فنڈز فراہم کریں گے۔
سالانہ 6 ارب ڈالرز کا 70 فیصد خلیجی ریاستیں، 20 فیصد امریکا اور 10 فیصد یورپی یونین ادا کرے گی۔
نیو فلسطین کو فوج رکھنے کی اجازت نہیں ہوگی تاہم پولیس فورس بنا سکے گا۔
اسرائیل دفاعی معاہدے کے تحت نیو فلسطین کے دفاع کا ذمہ دار ہوگا۔
معاہدہ طے پانے پر حماس اپنا تمام اسلحہ مصر کے حوالے کردے گی۔
حماس کے رہنماؤں کو عرب ریاستیں معاوضہ اور ماہانہ تنخواہیں ادا کریں گی۔
اسرائیل، مصر اور غزہ کے درمیان سرحدیں فلسطینی عوام کی آمد و رفت اور سامان کی ترسیل کے لیے ہمہ وقت کھلی رہیں گی۔
فلسطینی عوام کو اسرائیلی ہوائی اڈے اور بندرگاہیں استعمال کرنے کی اجازت ہوگی۔
نیو فلسطین کے قیام کے ایک سال کے اندر انتخابات کرائے جائیں گے۔
نیو فلسطین کے اردن کے لیے 2 کراسنگ پوائنٹ ہوں گے جن پر نیو فلسطین کا ہی کنٹرول ہوگا۔
وادئ اردن اسرائیل کے قبضے میں ہی رہے گی۔
اگر حماس یا فلسطین اتھارٹی اس معاہدے سے انکار کرے گی تو امریکا نہ صرف خود اس کی امداد روک دے گا بلکہ دیگر ملکوں کو بھی امداد روکنے پر مجبور کرے گا۔
اگر فلسطینی اتھارٹی کے صدر محمود عباس معاہدے پر دستخط کردیں اور حماس اور اسلامک جہاد اسے تسلیم نہ کریں تو امریکی سرپرستی میں غزہ پر مکمل جنگ مسلط کردی جائے گی۔
اگر اسرائیل اس ڈیل سے انکار کرے گا تو امریکا اس کی مالی مدد روک دے گا۔ امریکا اسرائیل کو سالانہ 3 اعشاریہ 8 ارب ڈالر مالی امداد مہیا کرتا ہے۔
صدر ٹرمپ کے داماد جارڈ کشنر نے 30 مئی کو اسرائیلی وزیراعظم بنجمن نیتن یاہو سے ملاقات میں انہیں اسرائیل کا نیا نقشہ پیش کیا جس میں شام کی گولان کی پہاڑیاں اسرائیل کا حصہ دکھائی گئی ہیں۔ اسرائیلی وزیراعظم نے پریس کانفرنس میں یہ نقشہ میڈیا کو دکھایا اور کہا کہ انہیں صدر ٹرمپ نے خاص تحفہ بھیجا ہے۔ یہ نقشہ امریکی محکمہ خارجہ نے جاری کیا اور اس پر صدر ٹرمپ کے دستخط بھی تھے۔
صدر ٹرمپ کے داماد جارڈ کشنر اسرائیلی وزیراعظم کو یہ تحفہ دینے ایسے وقت میں تل ابیب پہنچے جب بنجمن نیتن یاہو اپنی سیاسی زندگی کے تاریک ترین دور سے گزر رہے ہیں۔ اپریل میں ہونے والے الیکشن میں انہیں بڑی کامیابی نہیں ملی اور حکومت کی تشکیل کے لیے وہ اتحاد بنانے میں ناکام رہے ہیں۔ جارڈ کشنر سے ملاقات کے چند گھنٹوں بعد اسرائیلی پارلیمان تحلیل کر دی گئی اور ستمبر میں دوبارہ الیکشن کا اعلان کیا گیا۔
امریکی صدر ڈیل آف دی سنچری کی کامیابی کے لیے اپنا پورا زور نیتن یاہو کی الیکشن کامیابی پر صرف کر رہے ہیں۔ ڈیل آف دی سنچری کے جو مبینہ خد و خال سامنے آئے ہیں، اسرائیلی سیاسی بحران کے بعد ان میں تبدیلی کا امکان موجود ہے کیونکہ امریکی صدر اپنے دوست نیتن یاہو کی کامیابی کے لیے اسرائیل کو مزید رعایتیں دینے پر مجبور ہوسکتے ہیں۔
جارڈ کشنر نے 28 مئی سے مشرق وسطیٰ کا دورہ شروع کیا اور ان کی پہلی منزل مراکش تھی، اس سے اگلے دن وہ اردن پہنچے اور آخری پڑاؤ تل ابیب تھا۔ دورے کا بظاہر مقصد 25، 26 جون کو بحرین میں ہونے والی کانفرنس کی دعوت دینا تھا لیکن ان کے ساتھ ایران کے لیے امریکا کے خصوصی نمائندے برائن ہک کی موجودگی معنی خیز تھی۔ اب تک سعودی عرب، قطر اور متحدہ عرب امارات نے منامہ کانفرنس میں شرکت کی حامی بھری ہے۔ روس، چین اور فلسطین بائیکاٹ کا اعلان کرچکے ہیں۔
منامہ کانفرنس نہ صرف ڈیل آف دی سنچری کا ایک حصہ ہے بلکہ اسرائیلی وزیراعظم کے لیے بھی ایک تحفہ ہے۔ بحرین میں اسرائیلی نمائندوں کی اس کانفرنس میں شرکت نیتن یاہو کے طویل مدتی اسٹرٹیجک اہداف اور عرب ملکوں کے ساتھ قریبی تعلقات کی پالیسی کی کامیابی کا مظہر ہوگی۔ اسرائیل میں نیتن یاہو کا حکومت کی تشکیل میں ناکام ہونا بظاہر منامہ کانفرنس کی ناکامی یا التوا کا سبب بنتا نظر آیا لیکن امریکی محکمہ خارجہ نے وضاحت کی کہ منامہ کانفرنس شیڈول کے مطابق ہوگی۔
جارڈ کشنر کے دورے کو او آئی سی کے اعلامیہ کے بعد بھی ناکام تصور کیا جا رہا ہے کیونکہ اسلامی سربراہ کانفرنس کے اعلامیہ کا بڑا حصہ قضیہ فلسطین کے لیے وقف کیا گیا۔ مقبوضہ بیت المقدس کو اسرائیل کا دارالحکومت تسلیم کرنے والوں سے مطالبہ کیا گیا کہ وہ اپنے سفارتخانے القدس سے باہر منتقل کریں، اعلامیہ میں مسئلہ فلسطین کے 2 ریاستی حل کے سوا کسی اور منصوبے کو ماننے سے انکار کیا گیا اور کہا گیا کہ فلسطین کی ریاست 1967ء کی جنگ سے پہلے کے نقشے پر وجود میں لائی جائے جس کا دارالحکومت بیت المقدس ہو۔ اسرائیل گولان کی پہاڑیوں سمیت عرب ملکوں سے ہتھیائے گئے تمام علاقے خالی کرے۔
او آئی سی کا اعلامیہ بظاہر امریکی صدر کے منصوبے کی مکمل نفی ہے لیکن بحرین کی جانب سے فلسطین تنازع کے حوالے سے کانفرنس کی میزبانی، سعودی عرب، قطر اور عرب امارات کا شرکت پر آمادہ ہونا اس اعلامیے کی تائید نہیں کرتا۔ بحرین کا اس کانفرنس کی میزبانی پر آمادہ ہونا دراصل امریکا، اسرائیل اور خلیجی ممالک کے سہہ فریقی تعلقات کا مظہر ہے۔ فلسطین کے بائیکاٹ کے باوجود اس کانفرنس کی میزبانی، عرب ممالک کی شرکت پر آمادگی عربوں کے فلسطین پر روایتی مؤقف سے انحراف ہے۔ امن کے لیے اقتصادی ترقی کا منصوبہ بھی ایک نئی ایجاد ہے۔
اقتصادی کانفرنس کی میزبانی بحرین کے تاریخی مؤقف کے برعکس ہے۔ بحرین بھی عرب لیگ کے دیگر رکن ملکوں کی طرح 2002ء کے عرب معاہدے کا حصہ ہے۔ اس معاہدے کے تحت اسرائیل کے ساتھ تعلقات اور روابط جامع امن معاہدے، بیت المقدس کی آزادی اور فلسطینی ریاست کے قیام سے مشروط کیے گئے تھے۔
عرب ملکوں کا فلسطین کاز پر پرانے مؤقف کو دہرانا فلسطینی قیادت کو مطمئن نہیں کرسکتا۔ فلسطینی تاجروں نے بھی اس کانفرنس کے بائیکاٹ کا اعلان کیا ہے جس سے واضح ہے کہ فلسطینی عوام بھی عرب ملکوں کے اعلامیے اور وعدوں پر اعتبار کرنے کو تیار نہیں۔بحرین کا اس کانفرنس کی میزبانی پر رضامند ہونا ٹرمپ کے امن منصوبے پر خلیج میں امریکی سفارتی کوششوں کی کامیابی کے طور پر دیکھا جا رہا ہے کیونکہ اس کانفرنس سے کم از کم ٹرمپ کا منصوبہ یکسر مسترد کیے جانے کی بجائے زیرِ بحث تو آئے گا۔
امریکا کا پانچواں بحری بیڑہ بحرین میں ہی تعینات ہے۔ بحرین کو نان نیٹو اتحادی کا درجہ بھی حاصل ہے۔ بحرین میں کانفرنس سے اشارہ ملتا ہے کہ عرب ملک فلسطینی علاقوں میں سرمایہ کاری پر رضامند ہیں۔ بحرین ایران کے ساتھ امریکی کشیدگی میں اسٹرٹیجک اعتبار سے واشنگٹن کے لیے اہم ہے۔ ایران کا نام آئے تو اسرائیل خود بخود اس معاملے سے جڑ جاتا ہے۔ بحرین شام میں ایرانی مفادات پر اسرائیلی حملوں کی حمایت پر بیان بھی جاری کرچکا ہے۔ ایران کی خلیجی ممالک میں مختلف دھڑوں کو مدد اور حمایت بھی بحرین کے لیے تشویش کا باعث ہے کیونکہ بحرین میں آبادی کا بڑا حصہ شیعہ ہے۔ بحرین، عرب امارات اور سعودی عرب نے ایران کے پاسدارانِ انقلاب کو دہشتگرد قرار دیئے جانے کے امریکی اقدام کی کھل کر حمایت کی۔ ایران کے جوہری پروگرام پر معاہدے سے امریکی علیحدگی پر بھی ان ملکوں نے خوشی کا برملا اظہار کیا۔
بحرین کا یہ بھی واضح مؤقف ہے کہ ایرانی عزائم کی روک تھام کا راستہ بھی اسرائیل سے گزرتا ہے۔ بحرین کے شاہ حمد بن عیسیٰ کے بین المذاہب ہم آہنگی کے مشیر یہودی ربی مارک شنائر نے 2016ء میں حمد بن عیسیٰ کے اس بیان کا ذکر کیا تھا۔ حمد بن عیسیٰ کا کہنا ہے کہ مضبوط اور جدید عرب آواز کے لیے واحد امید اسرائیل ہے۔ اس سال فروری میں وارسا کانفرنس میں بحرین کے وزیرِ خارجہ خالد بن احمد الخلیفہ نے کہا تھا کہ اسرائیل فلسطین تنازع سے زیادہ اہم ایران سے نمٹنا ہے۔
فلسطین اقتصادی کانفرنس کے لیے میزبان ملک کا انتخاب خلیج تعاون کونسل کے ملکوں میں پائے جانے والے اختلافات کو بھی نمایاں کر رہا ہے۔ جی سی سی ممالک اس کانفرنس میں کس قدر سرمایہ کاری کے اعلانات کریں گے یہ تو کانفرنس میں ہی معلوم ہوگا لیکن قطر نے نہ صرف اس کانفرنس میں شرکت کی حامی بھری ہے بلکہ وہ غزہ میں اپنا اثر و رسوخ بھی بڑھانا چاہتا ہے۔ اس مقصد کے لیے قطر فلسطینی اتھارٹی کے لیے 480 ملین ڈالر امداد کا اعلان پہلے ہی کرچکا ہے۔ فلسطینی اتھارٹی امریکی منصوبے کی قبولیت کے لیے دباؤ ڈالنے پر سعودی عرب سے ناراض ہے اس کے باوجود سعودی عرب بھی بجٹ کے لیے 100 ملین ڈالر امداد دے چکا ہے۔ سعودی عرب کا مقصد حماس کا اثر توڑنا ہے جو اخوان المسلمون سے منسلک سمجھی جاتی ہے اور سعودی عرب اخوان کو 2014ء میں دہشتگرد جماعت قرار دے چکا ہے۔
اسلامی سربراہ کانفرنس کے اعلامیہ میں افغانستان حکومت کی حمایت کا اعلان کرتے ہوئے جنگ زدہ ملک میں دیرپا امن کی کوششوں کو آگے بڑھانے کا مطالبہ کیا گیا۔ افغان حکومت کی حمایت کا اعلان امریکی مؤقف کی تائید ہے۔ اس کے علاوہ جی سی سی ملکوں میں پائے جانے والے اختلافات بھی اس مؤقف کی وجہ بنے۔ عرب امارات افغان امن مذاکرات کے حالیہ سلسلے کا پہلا میزبان تھا لیکن پھر جنوری میں اچانک مذاکرات قطر منتقل کردیے گئے۔
افغان امن مذاکرات قطر منتقل کیے جانے پر عرب امارات شدید برافروختہ ہے۔ ایک خبر یہ بھی ہے کہ عرب امارات افغان امن مذاکرات کو امریکا کی مرضی کے مطابق جلد آگے بڑھانے کا خواہاں تھا لیکن افغان طالبان اس کے دباؤ میں نہیں آئے۔ عرب امارات اس قدر غصے اور جھنجھلاہٹ کا شکار ہے کہ اس کی قیادت نے امریکی وزیر خارجہ کو مشورہ دیا کہ طالبان قیادت کو کرائے کے قاتلوں کے ذریعے ختم کرا دیا جائے۔ امریکی وزیر خارجہ اس تجویز پر ہکا بکا رہ گئے لیکن انہوں نے اس پر کوئی ردعمل نہیں دیا۔ عرب امارات کی قیادت نے مائیک پومپیو سے کہا کہ ان مذاکرات کے ذریعے امن معاہدے سے افغانستان کے دوبارہ برے لوگوں کے ہاتھوں میں جانے کا خطرہ ہے۔
اسلامی سربراہ کانفرنس کے اعلامیہ میں ایران کا نام لیے بغیر سعودی عرب کے شہروں الدوادمی اور عفیف میں تیل تنصیبات پر دہشت گردانہ حملوں اور امارات کے پانیوں میں تیل بردار جہازوں پر حملوں کی بھی شدید مذمت کی گئی۔ اس سے پہلے عرب لیگ اور جی سی سی اجلاسوں میں ایران کی کارروائیوں پر بین الاقوامی برادری سے ایکشن کا مطالبہ کیا گیا۔ اسلامی سربراہ کانفرنس کے اعلامیہ میں ایران کا نام نہ لے کر سبوتاژ کی کارروائیوں کی مذمت کرنا او آئی سی کے پلیٹ فارم کی بچی کھچی ساکھ کو بچایا گیا لیکن عرب ملکوں کے اجلاسوں میں ایران کے خلاف کارروائی کے مطالبات سعودی عرب اور عرب امارات کے غصے اور بے صبری کی علامت ہیں۔
جی سی سی اور عرب لیگ ایران کے خلاف کارروائی کا مطالبہ تو کر رہی ہیں لیکن امریکا خود جنگ کے موڈ میں نہیں۔ اس کا ایک اشارہ تو گزشتہ روز سامنے آیا جب امریکی کمپنی نے عراق میں ایرانی سرحد کے قریب تیل کی تلاش کا کام دوبارہ شروع کردیا۔ اس سے پہلے مشرق وسطیٰ میں بحری جنگی بیڑہ بھجوانے کے اعلان کے ساتھ ہی امریکی کمپنی نے عراق چھوڑ دیا تھا۔
امریکی صدر ایران کے ساتھ فوری طور پر جنگ کے متحمل بھی نہیں ہیں ان کا مقصد صرف ایران کے جوہری پروگرام پر نیا معاہدہ کرنا ہے۔ عراقی ذرائع کا کہنا ہے کہ امریکی وزیر خارجہ مائیک پومپیو نے بغداد کے دورے کے دوران عراقی صدر عادل عبدالمہدی کے ساتھ ملاقات میں خلافِ توقع آگ اگلنے کے بجائے نئے معاہدے کی خواہش کا اظہار کیا۔ عراقی صدر نے جواب دیا کہ ایرانی کبھی بھی پہلے سے طے شدہ معاہدے پر دوبارہ مذاکرات نہیں کریں گے۔ عراقی صدر نے تجویز دی کہ ایران کے ساتھ اضافی پروٹوکول پر بات کی جا سکتی ہے۔ مائیک پومپیو اس جواب پر کھل اٹھے اور کہا کہ بہت اچھی تجویز ہے۔
عراقی صدر نے مائیک پومپیو سے ملاقات کے اگلے ہی دن اپنا نمائندہ تہران روانہ کیا اور انہیں نئی پیشکش سے آگاہ کیا۔ اسی تناظر میں امریکی صدر نے کہا تھا کہ ایرانی حکام مجھے فون کریں اور ڈیل کرلیں۔ ہم انہیں صرف جوہری ہتھیار بنانے سے روکنا چاہتے ہیں۔ ہمارا مقصد ایران کو نقصان پہنچانا نہیں۔
ایران نے مبینہ طور پر اس پیغام کا جواب سمندر میں تیل ٹینکروں کو نشانہ بنا کر دیا۔ ایران کا جواب صاف تھا کہ امریکا زور زبردستی پر آیا تو وہ آبنائے ہرمز اور باب المندب بندرگاہ بند کرسکتا ہے۔ اس حملے سے عرب امارات ہکا بکا رہ گیا۔ پہلے تو ٹینکروں پر حملے کی تردید کردی گئی۔ سارے دن کی تردید کے بعد شام کو تسلیم کیا گیا کہ 4 ٹینکروں کو نشانہ بنایا گیا ہے پھر سعودی عرب نے دوسرے دن تصدیق کی کہ جن جہازوں کو نشانہ بنایا ان میں سے 2 ٹینکر اس کے تھے جنہیں نشانہ بنایا گیا۔
کارروائی ایران نے کی یا اس کے حمایت یافتہ کسی گروپ نے، پیغام واضح تھا کہ اب کسی کے مفادات محفوظ نہیں رہیں گے۔ ایران ابھی امریکا کے ساتھ بات کرنے کے موڈ میں نہیں، اسے یہ بھی اندازہ ہے کہ اب ٹرمپ کے پاس پہلی مدت صدارت میں جنگ چھیڑنے کا وقت نہیں رہا۔ ٹرمپ صرف اپنے پیشرو بارک اوباما کا کریڈٹ چھیننے کے درپے ہیں اور نئی ڈیل کرکے اوباما کو نیچا دکھانا ان کا مقصد ہے۔
جنگ چھیڑنا اگر ٹرمپ کا آپشن بھی تھا تو وقت تیزی سے گزر رہا ہے۔ ایران کی جوہری تنصیبات کو تباہ کرنے کے لیے افغانستان کی طرز پر فضائی حملے کسی کام نہیں آئیں گے کہ بم مارو اور ڈراؤ۔ ایرانی تنصیبات پر پوری پلاننگ کے ساتھ حملے کرنے کے بعد یہ یقینی بنانا پڑے گا کہ تنصیبات کسی کام کی نہ رہیں۔
صدر ٹرمپ الیکشن کے دنوں میں اتنا بڑا خطرہ مول نہیں لیں گے اور یہ بات لبنان کے حسن نصراللہ کو بھی معلوم ہے اور یوم القدس پر خطاب میں انہوں نے اس کا ذکر بھی کیا۔ سعودی عرب اور عرب امارات امریکا کے بغیر یہ کارروائی کرنے کی سکت نہیں رکھتے۔ تیسری خلیجی جنگ صرف ایک کھلاڑی چھیڑ سکتا ہے اور وہ ہے اسرائیل۔ اسرائیل شام میں ایران کے ٹھکانوں کو کھلے عام نشانہ بنا رہا ہے اور اس کا اعلان بھی کرتا ہے جبکہ ماضی میں ایسی کارروائیاں کھلے عام تسلیم نہیں کی جاتی تھیں۔
ایرانی خطرہ ہی ہے جو اسرائیل اور عرب ملکوں کو قریب لا رہا ہے۔ امریکی صدر ٹرمپ کی موجودگی میں اسرائیل کے حوصلے بھی بلند ہو رہے ہیں۔ اس کے باوجو د ہر فریق یہ جانتا ہے کہ جنگ اس کے مفاد میں نہیں۔ صرف شطرنج کی ایک بساط بچھائی گئی ہے جس پر مہرے آگے بڑھائے اور پیچھے ہٹائے جاتے رہیں گے۔