(روز نامہ قدس ۔آنلائن خبر رساں ادارہ ) اسرائیل غاصب صہیونیوں کی جعلی ریاست ہے اور فلسطین، فلسطینیوں کا وطن ہے, رمضان المبارک کا آخری جمعہ یوم القدس منایا جائے، حکومت سرکاری سطح پر تقریبات کا انعقاد کرے، مقررین کا مطالبہ
فلسطین فاؤنڈیشن پاکستان اور انسٹیٹیوٹ آف ریسرچ اینڈ ریفارمز پاکستان کے زیر اہتمام اتوار اور پیرکی درمیانی شب کو آن لائن کانفرنس بعنوان ’’اسرائیل کے ساتھ تعلقات کا مسئلہ فلسطین اور کشمیر پر اثرات‘‘ کا انعقاد کیا گیا۔
آن لائن کانفرنس کی صدارت پاکستان پیپلز پارٹی کے سینئر رہنما اور سابق وفاقی وزیر داخلہ اور چیئرمین آئی آر آر سینیٹر رحمان ملک نے کی، کانفرنس سے معروف دفاعی تجزیہ نگار جنرل (ر) غلام مصطفی، بلوچستان عوامی پارٹی کی رہنما اور سابق سینیٹر ستارہ ایاز، جماعت اسلامی سے تعلق رکھنے والے سینیٹر مشتاق احمد، جمعیت علماء اسلام (ف) سے تعلق رکھنے والے سینیٹر طلحہ محمود، پاکستان عوامی تحریک کے مرکزی رہنما خرم نواز گنڈا پور،مرکز مطالعات پاکستان و خلیج کے صدرناصر شیرازی او رفلسطین فاؤنڈیشن پاکستان کے مرکزی سیکرٹری جنرل ڈاکٹر صابر ابو مریم نے خطاب کیا۔
آن لائن کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے سینیٹر رحمان ملک نے کہا کہ کشمیر اور فلسطین میں صہیونی و بھارتی ایک جیسے مظالم ڈھا رہے ہیں۔ مسلم دنیا اپنے مقصد سے اور اہداف سے ہٹ رہی ہے، ہماری طاقت جو ایک امت میں تھی اب نہیں رہی ہے ۔ ان کاکہنا تھا کہ مسئلہ فلسطین اور کشمیر کے حل کے لئے مسلمانان عالم کو متحد ہونا ہو گا۔ اسرائیل اور بھارت سمیت عالمی استعماری قوتیں مسلم دنیا کے اختلافات کا براہ راست فائدہ اٹھا رہے ہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ مسئلہ فلسطین برطانیہ کی جانبدارانہ اقدام کا نتیجہ ہے برطانیہ نے یہودیوں کو 20 فیصد فلسطینی زمین دی تھی اب جس کی 80 فیصد زمین پر یہودی قابض ہوچکے ہیں ، یہ ان کی اسٹریٹیجی تھی انھوں نے ایسے اقدامات کیئے جس سے خطے میں عدم توازن کی صورتحال قائم رہے۔
اسرائیل کو فلسطین کی زمین پر قائم کرنا بھی اسی مقصد کی خاطر تھا کہ خطہ میں عدم توازن ہو ، ان کاکہنا تھا کہ دنیا کی توجہ مسئلہ فلسطین سے ہٹانے کے لئے مشرق وسطیٰ کو غیر مستحکم رکھا گیا ہے۔
دنیا جانتی ہے کہ کس طرح عراق، ترکی،لیبیا، شام یمن ان تمام مشرقی وسطیٰ کے ممالک کو ایک دوسرے سے برسرپیکار کردیا گیا اور سب سے خطرناک دا عش کو کس نے بنایا اور کیوں بنایا، داعش میں ابتدائی طورپر شامل ہونے والوں میں فوجی تھے جن سے ملنے کیلئے ایک امریکی سینیٹر آیا اس حوالے سے عالمی میڈیا میں خوب چرچہ ہوا تھا یہ مسلمانوں کیلئے خلاف ایک بہترین انداز میں بنایاگیا خطرناک منصوبہ تھا جو ناکام ہو چکا۔
انھوں نے کشمیر کی ناز ک صورتحال پر بات کرتے ہوئے کہا کہ ہم نے ستر سال ایک ایسے گراؤنڈ میں کھیلا جو ہمارا نہیں تھا بھارت نے ہمیں بدنام کرنے کیلئے ہر ممکن طریقہ کار اختیا رکیا اور مغرب نے اس میں اس کا بھرپور ساتھ دیا۔
ان کاکہنا تھا کہ کشمیر اور فلسطین میں انسانیت سوز مظالم ہو رہے ہیں ، جغرافیائی حقائق کو مسخ کیا جا رہا ہے، فلسطین پر صہیونی غاصبانہ تسلط قائم ہے۔
انھوں نے اس موقع پر بابائے قوم حضرت قائد اعظم محمد علی جناح کے مقبوضہ فلسطین کے حوالے سے الفاظ دھراتے ہوئے کہا ہے قائد اعظم نے فرمایا تھا کہ اگر امریکہ اور برطانیہ اسرائیل کے غیر قانونی اقدامات کا ساتھ نہیں دیں تو اسرائیل فلسطین پر قابض نہیں ہوسکتا، لیکن ہم نے دیکھا کہ کس نے مقبوضہ بیت المقدس کو اسرائیل کا دارالحکومت تسلیم کیا۔
سینیٹر رحمان ملک نے کہا کہ خوف اور ڈر سے قومیں ختم ہوجاتی ہیں ہمیں مسئلہ فلسطین اور مسئلہ کشمیر پر بھرپور انداز میں عالمی سطح پر اس پر بات کرنا ہوگی۔
آن لائن کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے معرف دفاعی تجزیہ نگار جنرل (ر) غلام مصطفی نے کہا کہ پاکستان، ترکی اور ایران کو، امریکا، اسرائیل اور بھارت کے خلاف کھڑے ہونا پڑےگا۔
عسکری تجزیہ نگار جنرل ریٹائرڈ غلام مصطفی نے کہا ہے کہ بھارت اسرائیل اور امریکہ مسلمانوں کے خلاف ایک ساتھ ایک خطرناک منصوبے پر کام کررہے ہیں، امریکا نے اسرائیل کے ہر ناجائز اقدام میں اس کا بھرپور ساتھ دیا ہے، سابق امریکی صدر ٹرمپ نے مقبوضہ بیت المقدس کو اسرائیل کا دارالحکومت تسلیم کیا،گولان ہائٹس جو ملک شام کا حصہ تھا اس کو اسرائیل کو دے دیا جیسے یہ ان کے باپ کی جاگیر ہو، ڈیل آف سینچری پیش کی جو ناکام ہوئی تو معاہدہ ابراہیم کے نام سے ایک اور منصوبہ شروع کیا۔
قاسم سلیمانی کو قوانین کی پامالی کرتے ہوئے قتل کر دیا گیا۔ اسرائیل نے اپنا اثر رسوخ اردگرد کے ممالک سوڈان، اومان، مصر، اور دیگر عرب ممالک پر ڈال دیا ہے حتیٰ کہ کشمیر اور افغانستان میں بھی ان کی موجودگی کی مصدقہ اطلاعات ہیں۔
انھوں نے کہا کہ اسرائیل نے پورے خطے میں اپنے پنجے گاڑدیئے ہیں اور اس میں بھارت اور امریکا اس کے ساتھ ساتھ ہیں ، ایسی صورتحال میں اسرائیل کو اگر کسی ملک سے خطرہ ہے تو وہ پاکستان ہے اور کسی حد تک ایران سے ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ جو قو میں خون دینا اور قربانی دینا سیکھ جاتی ہیں ان کو شکست نہیں دی جاسکتی، کشمیر اور فلسطین آزاد ہیں جغرافیائی طورپر آزادی باقی ہے۔
کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے سینیٹر ستارہ ایاز نے کہا کہ اپنی بقاء کیلئے دشمن کے خلاف متحد ہونا چاہئے بدقسمتی یہ ہے کہ مسلم ممالک آج متحد نہیں ہے، عالمی فورمز پرکتنے ممالک نے مسئلہ کشمیر اور مسئلہ فلسطین پرسنجیدگی کا مظاہرہ کیا ہے اور آواز اٹھائی ہے حالانکہ مقبوضہ کشمیر اور مقبوضہ فلسطین میں انسانیت کی تذلیل ہورہی ہے۔
سینٹر ستارہ ایاز کا کہنا تھا کہ ارض مقدس فلسطین سے ہماری مذہبی اور جذباتی وابستگی ضرور ہے لیکن بدقسمتی سے مسلمانوں نے مسئلہ فلسطین کو اس طرح اسے اجاگر نہیں کیا جس طرح سے اس کی ضرورت تھی، مسلمانوں کے آپس کے اختلافات نے دشمن کو آج اتنا طاقتور کردیا ہے کہ وہ انسانیت سوز مظالم ڈھا رہے ہیں اور ہم سوائے افسوس اور مذمت کے کچھ نہیں کرسکتے۔
انھوں نے کہا ہے کہ اگر ہم آج مقبوضہ فلسطین سے نظر چرالیں تو ہم کشمیر پر کیسے اپنے مؤقف کو دنیا کے سامنے رکھ سکتے ہیں۔
جماعت اسلامی سے تعلق رکھنے والے سینیٹر مشتاق احمد نے کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ امت مسلمہ قبلہ اول کو دشمن کے ہاتھوں فروخت نہیں کرسکتی ۔ غاصب اور دہشتگردریاست اسرائیل نے مقبوضہ فلسطین میں انسانیت سوز سنگین جرائم کیئے ہیں جس کا حساب دینا ہی ہوگا۔ سینیٹر مشتاق احمد خان نے کہا ہے کہ ارض فلسطین ایک لاکھ چوبیس ہزار ابنیاء کی سرزمین ہے یہ کسی ایک مسلمان کا نہیں یہ تمام مسلم امہ کی ذمہ داری ہے کہ وہ اس مقدس سرزمین کی صیہونی طاقتوں سے بازیابی کی کوششیں کریں جہاں سے سرورکونین آقائے دوجہاں ﷺ نے سفر معراج شروع کیا تھا۔ ان کاکہنا تھا کہ ارض مقدس فلسطین سے دستبرداری درحقیقت حرمین شریفین سے دستربرداری ہوگی ۔ انھوں نے بابائے قوم حضرت قائد اعظم محمد علی جناح اور علامہ محمد اقبال کے مقبوضہ فلسطین کے حوالے سے بیانات کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ہم نے صیہونی ریاست کی شرانگیزیوں کو جانتے ہوئے سب سے پہلے سینیٹ میں اسرائیل اور امریکا کی تیار کردہ نام نہاد امن منصوبہ صدی کی ڈیل کو ایک تباہ کن منصوبہ قرار دیتے ہوئے مستردکیا تھا ۔ انھوں نے اسلامی تعاون تنظیم (او آئی سی) کو انجمن غلامان امریکا کا لقب دیتے ہوئے کہا ہے کہ مسلم ممالک کے حکمرانوں سے کوئی امید نہیں ہے امت مسلمہ اور ہے اور حکمران اور ہیں ، دشمن نے ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت ایک ارب بیس کروڑ مسلمانوں کو پسماندہ رکھا ہے تاکہ امت مسلمہ ایک نا ہوسکے، وہ وقت دور نہیں ہے جب مسلمان اس دہشتگرد ریاست اسرائیل کے خلاف غلام حکمرانوں کے بغیر متحدہوجائیں گے اور بہت جلد قبلہ اول صیہونی طاقتوں سے آزاد ہوجائے گا۔
کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے جمعیت علماء اسلام (ف) سے تعلق رکھنے والے سینیٹر طلحہ محمود نے کہا کہ شکوہ اسرائیل سے نہیں اپنے اندر موجود غداروں سے ہے۔ دنیا میں ہونے والی ہر غیر معمولی منفی سرگرمی کے پیچھے صیہونی ریاست یا صیہونی ہوتے ہیں ۔ سینیٹر طلحہ محمود نے کہا ہے کہ اسرائیل نے مقبوضہ فلسطین میں انسانیت کے خلاف ہونے والے اقدامات کی حد پار کرلی ہے، اسرائیل ریلیف کے کاموں کیلئے بھی امدادی کارکنان کو غزہ جانے کی اجازت نہیں دیتا ہے اور اس پر دنیا خاموش ہے ۔
کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے پاکستان عوامی تحریک کے رہنما کا کہنا تھا کہ وقت آگیا ہے دشمن کے خلاف ہم خیال ممالک کے ساتھ مشترکہ حکمت عملی ترتیب دی جائے ۔ وقت آگیا ہے دشمن کے خلاف ہم خیال ممالک کے ساتھ مشترکہ حکمت عملی ترتیب دی جائے۔ خرم نواز گنڈہ پور نے مقبوضہ فلسطین اور مقبوضہ کشمیر کے نہتے مظلوم مسلمانوں کی امداد کیلئے قرآن کریم کی سورۃ نساء کا حوالہ دیتے ہوئے کہا ہے کہ مظلوم کی آزادی کیلئے جہدجہد کرنا حکم ربی ہے جس کیلئے اٹھنا ہم پر فرض ہے۔
ان کاکہنا تھا کہ فی الحال پاکستان اور ترکی دو ایسے عسکری اعتبار سے مضبوط ممالک ہیں جن کے ایران کے ساتھ ساتھ عرب ممالک کے ساتھ بھی بہتر تعلقات ہیں تو ہم کو چاہئے کہ اس حوالے سے ایک ایسی مشترکہ حکمت عملی تریب دیں جو ہمارے مفادات نقطہ نظر کو متحد کریں اس حوالے سے چین ہماری حمایت کرے گا اور یہ اس کی مجبوری ہے کیونکہ چین کو اگر اوورلینڈ روٹ چاہئے تو وہ صرف ایران پاکستان اور ترکی ہی اس کو دے سکتے ہیں۔
کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے ناصر شیرازی کاکہنا تھا کہ مسلح مزاحمت ہی اسرائیل کا واحد علاج ہے ۔ انہوں نے کہا کہ اسرائیل کے ایٹمی ری ایکٹر سے صرف آٹھ میل دو ر ملک شام نے حملہ کیا جس کو اسرائیل کا سب سے جدید ترین دفاعی نظام نہیں روک سکا ہے، اسرائیلی اب ایک نئے خوف میں مبتلا ہیں اور یہ سب صرف مسلح مزاحمت سے ہی ممکن ہو سکا ہے ۔ ایڈو کیٹ ناصر عباس شیرازی کا کہنا تھا کہ اسرائیل پاکستان کا کھلا دشمن ہے اسرائیل ہر اس منصوبے میں شامل ہے جس میں پاکستان کو نقصان پہچانے کی کوشش کی جاتی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ اسرائیل، بھارت اور امریکا پاکستان کو نقصان دینے کیلئے مشترکہ حکمت عملی پر عمل پیرا ہیں، انھوں نے سی پیک کے حوالے سے بات کرتے ہوئے کہا ہے کہ ہم دیکھ سکتے ہیں سی پیک کو ناکام کرنے اور چین کو پاکستان سے بدظن کرنے کیلئے جس قسم کی سازشیں ہورہی ہیں وہ ہمارے پڑوس میں تیار کی جارہی ہیں اور اسرائیل اس میں بھرپور مددگار ہے، انھوں نے بتایا کہ اسرائیل نے عرا ق اور لیبیا کا ایٹمی پلانٹ تباہ کیا اور اس کو تسلیم بھی کیا تو کیا اسرائیل کو یہ قبول ہوگا کہ وہ پاکستان کو ایٹمی طاقت رہنے دے;تو اس سلسلے میں تمام مزاحمتی جماعتوں اور نظریات رکھنے والوں کو اسرائیل کے خلاف مزاحمت کرنا چاہئے۔ مسلح مزاحمت ہی اسرائیل کا واحد علاج ہے ۔ یہ مزاحمت ہی ہے جس سے اسرائیل کے گریٹر اسرائیل کا خواب اب شرمندہ تعبیر نہیں ہوسکتا ہے۔
کانفرنس کے اختتام پر فلسطین فاؤنڈیشن پاکستان کے مرکزی سیکرٹری جنرل ڈاکٹر صابر ابو مریم نے مہمانوں اور مقررین کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان میں صہیونی ریاست کے حق میں بات کرنا سنگین جرم قرار دیا جائے۔ ڈاکٹر صابر ابومریم نے کہا کہ ایوان بالا اور ایوان زیریں میں صیہونی ریاست اسرائیل کے ساتھ تعلقات قائم کرنے کی ہر کوشش کی حوصلہ شکنی کی جائے، اسرائیل کے ساتھ تعلقات کسی بھی صورت قابل قبول نہیں۔
انہوں نے اعلی عہدیداران اور شخصیات سے گزارش کرتے ہوئے کہا کہ وہ سینیٹ اور قومی اسمبلی میں صیہونی ریاست اسرائیل کے ساتھ تعلقات قائم کرنے کی ہر کوشش کی حوصلہ شکنی کریں اور اس حوالے سے بتائیں کہ اسرائیل کے ساتھ تعلقات کسی بھی صورت قابل قبول نہیں اور نا پاکستان کے مفاد میں ہے۔
انھوں نے اس موقع پر تمام مسلمانوں سے اپیل کی ہے کہ وہ رمضان المبارک کے آخری جمعہ (جمعتہ الوداع) یوم القدس کے عنوان سے منائیں کیونکہ یہ دن پوری دنیا میں منایا جاتا ہے ہم اس دن اپنی آوازوں کو مسئلہ فلسطین کے حق میں بلندکریں۔
انھوں نے صدر مملکت عارف علوی اور وزیراعظم عمران خان سے مطالبہ کیا کہ رمضان المبارک کے آخری جمعہ کو سرکاری سطح پر یوم القدس کا اعلان کیا جائے اور حکومتی سطح پر تقریبات منتعد کی جائیں تاکہ ہم بابائے قوم حضرت قائد اعظم محمد علی جناح اور مفکر پاکستان علامہ محمد اقبال کے نظریہ کو آگے لیکر چلیں جس میں مسئلہ فلسطین اور مسئلہ کشمیر ہماری ترجیح ہے۔