(روز نامہ قدس ۔آنلائن خبر رساں ادارہ) واشنگٹن میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور غیر قانونی صیہونی ریاست اسرائیل کے وزیرِاعظم بنیامین نیتن یاہو کے درمیان ہونے والی حالیہ ملاقات کو اسرائیلی میڈیا اور تجزیہ کاروں نے نیتن یاہو کے لیے "شرمندگی اور مایوسی کا لمحہ” قرار دیا ہے۔ متعدد رپورٹس کے مطابق، یہ ملاقات نیتن یاہو کی توقعات کے برعکس ثابت ہوئی اور اسے "ذلت آمیز حیرت” کا نام دیا جا رہا ہے۔
اسرائیلی اخبار "معاریو” کی سیاسی تجزیہ کار آنا برسکی کے مطابق، ٹرمپ نے براہِ راست نشریات کے دوران نیتن یاہو کو شرمندہ کیا، خاص طور پر اس وقت جب انہوں نے ایران کے ساتھ جاری خفیہ مذاکرات کو علانیہ اور فیصلہ کن قرار دیا۔ نیتن یاہو، جو سفارتی دباؤ سے ایران کو الگ تھلگ کرنا چاہتے تھے، اس اعلان سے بظاہر بوکھلا گئے۔
یہ انکشاف اس وقت ہوا جب نیتن یاہو امریکی صدر سے ملاقات کے دوران یہ توقع لے کر پہنچے تھے کہ وہ ایران کے خلاف سخت موقف، تجارتی محصولات میں نرمی اور ترکی کے خلاف سخت رویہ اپنانے جیسے مطالبات منوا لیں گے۔ لیکن ٹرمپ کے ایران سے براہ راست مذاکرات اور ترک صدر رجب طیب اردوان کے لیے گرمجوش الفاظ نیتن یاہو کے لیے شدید دھچکا ثابت ہوئے۔
اسرائیلی اخبار "یدیعوت آحرونوت” کے صحافی نداف ایال نے اس لمحے کا نقشہ کچھ یوں کھینچا: "نیتن یاہو نے تھوک نگلا، دائیں بائیں دیکھا، چہرہ سُرخ ہوا اور نظریں جھکا لیں، جب ٹرمپ نے اچانک ایران کے ساتھ براہ راست بات چیت کا انکشاف کیا۔” اس منظر کو اسرائیلی تجزیہ نگاروں نے نیتن یاہو کی سیاسی کمزوری اور وائٹ ہاؤس میں بے بسی کی کھلی عکاسی قرار دیا۔
واشنگٹن کے اس دورے سے نیتن یاہو نہ صرف خالی ہاتھ واپس لوٹے، بلکہ امریکی صدر نے یہ بھی واضح کیا کہ صیہونی ریاست کو اربوں کی امریکی فوجی امداد پہلے ہی حاصل ہے، اور محصولات میں کسی رعایت کی گنجائش نہیں۔
ایک اور جھٹکا نیتن یاہو کو اس وقت لگا جب انہوں نے ترکی کے خلاف سخت اقدام کی درخواست کی، لیکن ٹرمپ نے اردوان کو "دوست” اور "زبردست رہنما” قرار دے کر نیتن یاہو کی امیدوں پر پانی پھیر دیا۔ ٹرمپ نے یہاں تک کہا: "اگر تم منطقی طور پر کام کرو گے تو میں مسئلہ حل کر لوں گا، لیکن تمہیں خود بھی سمجھداری سے چلنا ہوگا۔”
اس ملاقات کے بعد اسرائیلی میڈیا میں یہ بحث زور پکڑ گئی ہے کہ آیا نیتن یاہو اب بھی امریکی پالیسی پر اثرانداز ہو سکتے ہیں یا نہیں۔ تجزیہ کار براق رافید کے مطابق، یہ ملاقات نیتن یاہو کے کیریئر کی سب سے بڑی خارجہ ناکامیوں میں سے ایک ہے۔