(روز نامہ قدس ۔آنلائن خبر رساں ادارہ) غیر قانونی صیہونی ریاست اسرائیل کی داخلی سیکیورٹی ایجنسی "شاباک” کے سربراہ، رونین بار، نے وزیر اعظم بن یامین نتنیاہو کی جانب سے انہیں ہٹانے کے ارادے پر سخت ردعمل ظاہر کیا۔ نیتن یاہو نے اتوار کے روز رونن بار کو ہنگامی اجلاس میں طلب کر کے ان کی برطرفی کا عندیہ دیا تھا۔
اجلاس کے کچھ ہی دیر بعد، وزیر اعظم کے دفتر نے بیان جاری کیا کہ نتنیاہو اس ہفتے حکومتی اجلاس میں بار کی برطرفی کا باضابطہ فیصلہ پیش کریں گے، جو بدھ کے روز زیر غور آئے گا۔
بعد ازاں، بار نے نیتن یاہو کے اس اقدام پر شدید تنقید کی، اسے "شخصی وفاداری حاصل کرنے کی کوشش” قرار دیا اور کہا کہ یہ نہ صرف قومی مفاد کے خلاف ہے بلکہ "شاباک” کی بنیادی اقدار اور اصولوں کی بھی خلاف ورزی ہے۔ امریکی خبر رساں ادارے "ایکسِیوس” کے مطابق، ایک صیہونی اہلکار نے بتایا کہ نتنیاہو کئی ہفتوں سے بار پر دباؤ ڈال رہے تھے کہ وہ خود ہی مستعفی ہو جائیں، تاہم بار نے اس دباؤ کو مسترد کر دیا اور واضح کیا کہ اگر نتنیاہو انہیں ہٹانا چاہتے ہیں تو وہ قانونی طریقے سے ایسا کر سکتے ہیں۔
اپنے تحریری بیان میں، بار نے کہا کہ انہوں نے نیتن یاہو کو آگاہ کیا ہے کہ وہ "بہت سے حساس تحقیقات” مکمل کرنے اور غزہ میں قید باقی صیہونی قیدیوں کی رہائی کے انتظامات مکمل کرنے کے بعد ہی مستعفی ہوں گے۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ وہ اپنے متبادل کے طور پر شاباک کے اندرونی امیدواروں کو تجویز کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں، لیکن اس سے قبل وہ اپنی جاری ذمہ داریوں کو مکمل کرنا چاہتے ہیں۔
نیتن یاہو اور بار کے درمیان تناؤ حالیہ دنوں میں اس وقت شدت اختیار کر گیا جب نیتن یاہو نے انہیں اسرائیلی قیدیوں اور فلسطینی اسیران کے تبادلے سے متعلق مذاکرات سے بے دخل کر کے اپنی قریبی شخصیت، اسٹریٹجک امور کے وزیر رون ڈیرمر کو ان مذاکرات میں شامل کر لیا۔ ساتھ ہی، نیتن یاہو نے اپنے نائب، جس کا نام "میم” کے ابتدائی حرف سے ظاہر کیا گیا ہے، کو مذاکراتی ٹیم میں شامل کر دیا، جو بار کے ممکنہ جانشین سمجھے جا رہے ہیں۔
اگرچہ بار پہلے ہی اپنی مدت پوری کرنے کا ارادہ نہیں رکھتے تھے، لیکن وہ کم از کم مئی تک اپنے عہدے پر برقرار رہنا چاہتے تھے۔ ان کی برطرفی کا فیصلہ صرف حکومتی منظوری تک محدود نہیں بلکہ اسے غیر قانونی صیہونی ریاست کی اٹارنی جنرل گالی بہاراف-میارا کی منظوری بھی درکار ہوگی، جنہیں ہٹانے کا منصوبہ نتنیاہو اور ان کے وزراء پہلے ہی بنا رہے ہیں، لیکن قانونی پیچیدگیوں کی وجہ سے انہیں مشکلات کا سامنا ہے۔
اتوار کی شب، اٹارنی جنرل بہاراف-میارا نے نتنیاہو کو مطلع کیا کہ وہ شاباک چیف کو کسی بھی غیر قانونی اور من مانی کارروائی کے ذریعے نہیں ہٹا سکتے۔ انہوں نے واضح کیا کہ اس نوعیت کے کسی بھی فیصلے سے قبل قانونی جواز کا مکمل جائزہ لینا ضروری ہوگا۔ صیہونی اخبار "یدیعوت احرونوت” کے مطابق، بہاراف-میارا نے نتنیاہو کو ایک سرکاری خط میں متنبہ کیا کہ: "آپ شاباک چیف کی برطرفی سے قبل قانونی و حقائق پر مبنی مکمل جائزہ لینے اور اپنی اس حوالے سے قانونی حیثیت کا تعین کیے بغیر ایسا نہیں کر سکتے۔”
انہوں نے مزید کہا کہ "شاباک چیف کی برطرفی ایک سنگین مثال قائم کرے گی، جو قانونی خطرات پیدا کر سکتی ہے اور ممکنہ طور پر غیر قانونی بھی ہو سکتی ہے، کیونکہ اس میں مفادات کا ٹکراؤ شامل ہے۔” ان کا کہنا تھا کہ "شاباک چیف وزیر اعظم کی ذاتی پسند و ناپسند کے تابع نہیں ہوتے۔”
اسی حوالے سے، غیر قانونی صیہونی ریاست کی حکومت کے ڈپٹی اٹارنی جنرل گیل لیمون نے بھی واضح کیا کہ نتنیاہو شاباک چیف کو اس وقت تک نہیں ہٹا سکتے جب تک کہ قانونی طریقہ کار مکمل نہ کر لیا جائے۔ انہوں نے کہا کہ اس معاملے میں کوئی بھی فیصلہ پہلے قانونی جانچ کے عمل سے گزرنا چاہیے اور پھر حکومتی منظوری حاصل کرنی ہوگی، جو اب تک نہیں ہوئی۔
لیمون نے مزید کہا کہ "شاباک چیف کی برطرفی کا اختیار صرف وزیر اعظم کو نہیں بلکہ پوری حکومت کو حاصل ہے، اور اس کے لیے شفاف، معروضی اور سیاسی اثر و رسوخ سے پاک وجوہات فراہم کرنا لازمی ہوگا۔”