(روزنامہ قدس ۔آن لائن خبر رساں ادارہ) مقبوضہ فلسطین میں تل ابیب سے 50 کلومیٹر دور کنعانیوں کاپانچ ہزار سال قدیم شہر دریافت ہوا ہے ، ماہرین آثار قدیمہ کا ماننا ہے کہ یہ شہر مصر میں فرعونی خاندان کے ابتدائی دور میں پروان چڑھا۔
تفصیلات کے مطابق فلسطین پر قابض صیہونی ریاست اسرائیل شمالی علاقے کی "وادی عارہ ” میں عرب گنجان آباد علاقے کی میں ہائی وے کی تعمیر کے دوران قدیم کنعانیوں کے پانچ ہزار سال قدیم شہر کے باقیات دریافت ہوئے ہیں ۔
رقبے کے لحاظ سے 6.5 لاکھ مربع میٹر سے زیادہ کے اس بڑے شہر کو سائنس دانوں نے "قدیم برنجی دور کے نیویارک” کا نام دیا ہے۔ آثار قدیمہ کی جانب سے جاری بیان کے مطابق یہ پانچ ہزار سال قدیم کنعانیوں کے اس شہر میں 6 ہزار سے زائد افراد رہائش پزیر تھے ،شہر میں سیکڑوں عمارتیں اور سڑکیں تھیں جن میں ایک انوکھا عبادت خانہ بھی شامل ہے، یہ شہر لبنان، اردن اور جنوبی شام میں ملنے والے قدیم شہروں میں سب سے بڑا ہے۔
آثار قدیمہ کے ایک اسرائیلی ماہر Yitzhak Paz کا کہنا ہے کہ 1800 برس قبل حالات نے اس شہر کے باسیوں کو علاقہ چھوڑ جانے پر مجبور کر دیا جو زراعت اور تجارت سے وابستہ تھے تاہم ان لوگوں کے کوچ کر جانے کی وجہ معلوم نہیں ہو سکی۔
شہر کے پڑوس میں واقع علاقہ خطے کے لیے ایک بڑے تجارتی مرکز کی حیثیت رکھتا تھا۔ کھدائی کے دوران ماہرین آثار قدیمہ کو ایک گاؤں کے آثار بھی ملے جو 2000 سال پرانے ہیں۔ جہاں تک عبادت خانے کا تعلق ہے تو اس کی ایک بڑی عمارت تھی۔ یہاں کنعانی باشندے اپنے معبودوں کی بارگاہ میں پیش کی جانے والی قربانیوں کو جلایا کرتے تھے۔
اس بات کی تصدیق یہاں پر ملنے والی جانوروں کی جلی ہوئی ہڈیوں سے ہوتی ہے۔شہر کی باقیات میں چھوٹے مجسمے ملے جن کے انسانی اور حیوانی سر ہیں۔ اس کے علاوہ 40 لاکھ سے زیادہ قدیم اشیاء بھی ہاتھ آئی ہیں جن میں زیادہ تر قیمتی نوادرات اور پتھر کی بنی ہوئی چیزیں ہیں۔مذکورہ شہر کے آثار دریافت کرنے والے ماہرین کے مطابق یہ شہر مصر میں فرعونی خاندان کے ابتدائی دور میں پروان چڑھا۔
شہر کے انفرا اسٹرکچر کو خوب صورتی کے ساتھ ڈیزائن کیا گیا۔ ان میں سڑکیں، نکاسی آب کے ذرائع اور خوراک کی ذخیرہ اندوزی کے لیے مرکزی گودام اور ڈپو اہم ترین ہیں۔ آثار قدیمہ کی ایک اسرائیلی خاتون ماہر "دينا شالم” کے مطابق شہر کی باقیات سے پتہ چلتا ہے کہ یہاں دفاعی قلعبہ بندیاں بھی موجود تھیں۔ ان میں ہر ایک 20 میٹر طویل اور 2 میٹر اونچی تھی۔ ان کے علاوہ ایک بڑا قبرستان بھی پایا گیا۔ اسی واسطے یہ سمجھا جاتا ہے کہ شہر کی آبادی بعض وقتوں میں شاید 10 ہزار تک پہنچی ہوئی تھی۔
اسرائیلی حکام "حاريش” کی ہہودی بستی کو ایک بڑا شہر بنانے کی مںصوبہ بندی کرر ہے ہیں جو 1.6 لاکھ لوگوں کے لیے مناسب ہو۔ اس طرح علاقے میں عرب باشندوں کی آبادی کی کثافت کم کی جا سکے گی۔