(روز نامہ قدس ۔آنلائن خبر رساں ادارہ) مصر کے وزارتِ خارجہ نے پہلی بار ایک سرکاری بیان میں غزہ سے فلسطینیوں کی جبری بے دخلی سے متعلق امریکی موقف کے خطرات پر روشنی ڈالی ہے۔ مصر نے خبردار کیا کہ اس طرح کے اقدامات نہ صرف خطے میں امن کے لیے سنگین خطرہ ہیں بلکہ یہ تنازعہ کے بنیادی اسباب کو نظر انداز کرنے کے مترادف ہیں۔
بیان میں زور دیا گیا کہ مسئلہ فلسطین کا کوئی بھی حل اس کے تاریخی پس منظر اور حقیقی وجوہات کو مدنظر رکھے بغیر ممکن نہیں۔ مصر نے واضح کیا کہ تنازعہ کا مستقل اور منصفانہ حل صرف غیر قانونی صیہونی ریاست اسرائیل کے فلسطینی زمینوں پر ناجائز قبضے کے خاتمے اور دو ریاستی حل کے نفاذ میں مضمر ہے، جو خطے میں پائیدار استحکام اور عوام کے درمیان پرامن بقائے باہمی کی ضمانت دے سکتا ہے۔
مصر کے وزارتِ خارجہ نے اپنے بیان میں اعلان کیا کہ وہ غزہ کی تعمیرِ نو کے لیے ایک جامع منصوبہ پیش کرے گا، جس کا مقصد فلسطینی عوام کو ان کی سرزمین پر برقرار رکھنا اور ان کے قانونی و شرعی حقوق کی حفاظت کرنا ہے۔
مزید برآں، مصر نے اپنی اس خواہش کا اظہار کیا کہ وہ امریکی انتظامیہ کے ساتھ مل کر خطے میں ایک جامع اور منصفانہ امن کے قیام کے لیے کام کرے گا، تاکہ فلسطینی عوام کے دیرینہ حقوق کو تسلیم کیا جا سکے اور مسئلے کا پائیدار حل تلاش کیا جا سکے۔
اس سے قبل، امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اردن کے بادشاہ عبداللہ دوم سے ملاقات کے دوران کہا تھا کہ واشنگٹن اردن اور مصر کو خطیر مالی امداد فراہم کرتا ہے، لیکن اس کے باوجود امریکہ ان ممالک کو کوئی دھمکی نہیں دے گا۔
ٹرمپ نے مزید کہا کہ فلسطینیوں کو غزہ کے بجائے کسی اور مقام پر محفوظ رہائش دی جا سکتی ہے اور انہیں یقین ہے کہ اس مسئلے کا کوئی حل نکالا جا سکتا ہے۔ انہوں نے دعویٰ کیا کہ "99 فیصد امکان ہے کہ ہم مصر کے ساتھ بھی کسی معاہدے پر پہنچ جائیں گے”۔
امریکی صدر نے مزید کہا کہ غزہ کی ترقی مستقبل میں خطے میں روزگار کے مواقع پیدا کرے گی۔ انہوں نے یہ بھی دعویٰ کیا کہ فلسطینیوں کے لیے اردن اور مصر میں متبادل زمین فراہم کی جا سکتی ہے، جبکہ حماس کو ہر صورت ہفتے تک تمام یرغمالیوں کو رہا کرنا ہوگا۔