(روزنامہ قدس ۔آن لائن خبر رساں ادارہ) لبنان کی اسلامی مزاحمت کی تحریک حزب اللہ کے سربراہ نے اپنے ایک اہم خطاب میں لبنانی قوم اور دنیا بھر کے مسلمانوں سے اپیل کی ہے کہ وہ مسلم امہ کے دشمنوں امریکہ اور اسرائیل کی سازشوں سے ہوشیار رہتے ہوئے اپنی صفوں مین اتحاد اور وحدت قائم رکھیں۔
سید حسن نصر اللہ نے کہا کہ مسلمانوں کے تمام مسالک کو چاہئیے کہ ایک دوسرے کے مقدسات کا احترام کریں اور کسی کو یہ حق حاصل نہیں کہ کوئی کسی کے مقدسات کی توہین کرے۔
انہوں نے مزید کہا کہ حتیٰ مسلمانوں کو بھی حق نہیں کہ وہ مسیحی مقدسات کی توہین کریں اسی طرح مسلمانوں کے مختلف مسالک شیعہ، و سنی اور دیگر بھی اسی قانون کے پابند ہیں کہ ایک دوسرے کے مقدسات کا احترام کریں اور کی توہین نہ کی جائے۔
انہوں نے کہا کہ امریکہ اور اسرائیل سمیت مغرب کی استعماری طاقتیں اپنےمن پسند افراد کے ذریعہ نادان اور کم علم افراد کو استعمال کرتے ہوئے مذاہب کے مابین توہین آمیز واقعات کا ارتکاب کرواتی ہیں جس کا مقصد مسلمانوں کی توجہ کو بنیادی مسائل سے ہٹا کر باہم دست وگریباں کر دینا ہے۔
انہوں نے گذشتہ دنوں لبنان میں ہونے والے واقعات کہ جس میں تشدد اور املاک، سیکیورٹی فورسز پر ہونے والے حملوں اوراس سے بھی خطرناک حد تک، اہم علامتوں پر لعنت بھیجنے کے بارے میں، چاہے مسلمانوں کی یا مسیحوں کی ہوں شدید الفاظ میں مذمت کی اور اس عمل سے اجتناب کی اپیل کی۔
سیدحسن نصر اللہ نے کہا کہ 17 اکتوبر کے بعد میری ابتدائی تقریر کی طرف واپس جائیں ، میں نے عوامی یا پرائیویٹ پراپرٹی پر حملہ نہ کرنے، سیکیورٹی فورسز پر حملہ نہ کرنے، سیاسی یا مذہبی علامتوں پر لعنت نہ بھیجنے یا سڑکیں بند کرنے کا مطالبہ نہیں کیاتب سے ہم ان نکات پر مستقل مزاج ہیں۔
عوام کے احتجاج میں یہ طریقے اصلاحات کو نافذ کرنے پر حکومت پر دباؤ ڈالنے کے مقصد کو پورا نہیں کرتے ہیں نہ صرف یہ، یہ طریقہ کار غیر موثر ہیں اور عوام کو مظاہرین کے مطالبات کی مخالفت کرنے پر گامزن کرتے ہیں کچھ بھی ہے، اس سے انتشار پھیلتاہے، اور مجھے نہیں لگتا کہ کوئی افراتفری چاہتا ہے۔
سید حسن نصر اللہ نے ایک دوسرے کے مقدسات کی توہین کے عمل کی شدید الفاظ میں مذمت کی اور کہا کہ سیاسی اور مذہبی علامات پر لعنت بھیجنے کے بارے میں چہ جائیکہ سوشل میڈیا پر ہو، گلیوں میں ہو، یہاں تک کہ روایتی ذراءع ابلاغ میں بھی ہو، ایک مخصوص اخلاقی گراوٹ اور نظم و ضبط کی عکاسی کرتا ہے ۔ ذمہ دار قائدین کو کسی بھی قسم کی اندرونی جھگڑوں کو روکنا ہوگا، خاص کر فرقہ وارانہ نوعیت کے ۔ ہم سب تحمل کو برقرار رکھنے کے ذمہ دار ہیں ۔
سید حسن نصر اللہ نے حال ہی میں لبنانی میڈیا پر ہونے والے واقعات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ حال ہی میں میڈیا پر کسی نے امام علی کی توہین کی اور شیعہ مسلمانوں نے اسے ذاتی حملہ قرار دیا ۔ اسی طرح 6;223;6;223;20 کے مظاہروں کے دوران کچھ افراد نے حضرت عائشہ کو بددعا دی اور ہمارے سنی مسلمان بھائیوں نے اسے ذاتی حملہ کے طور پر لیا ۔
سید حسن نصر اللہ نے کہا کہ اسرائیلیوں اور دیگر سے تعلق رکھنے والی الیکٹرانک لشکر چاہتے ہیں کہ یہ ملک تنازعات میں پڑ جائے ۔ اسی طرح اسرائیلی چاہتے ہیں کہ پوری مسلم امہ انتشار کا شکار ہو جائے ۔ کیا ہم میں سے باقی افراد نادانستہ طور پر ان کی کاوشوں کی مدد کریں ، یا ہ میں ذمہ داری کے ساتھ کام کرنا چاہئے;238; اور ہم کس طرح ذمہ داری نبھائیں ;245;ہ میں یقینا دشمن کے ایجنڈا کو ناکام بنانا ہو گا ۔
سید حسن نصر اللہ نے مسالک کے مابین مقدسات کی توہین کے واقعات سے متعلق مثال پیش کرتے ہوئے کہا کہ مثال کے طور پر جب اس شخص نے ٹی وی پر امام علی پر لعنت کی تھی ;245; لبنان میں شیعہ رہنماؤں کو لازمی یہ موقف اختیار کرنا چاہئے اور کہنا چاہئے تھا کہ یہ خیالات سنی برادری یا اس کے عقائد کی نمائندگی نہیں کرتے، اور حکام کو اس شخص کے ساتھ نمٹنے دیں ۔ اس معاملے کو اس فرد تک محدود رکھیں جس نے جرم کیا، اور ان کے خاندان، یا یہاں تک کہ سیاسی جماعت پر حملہ نہ کریں ، فرقے کو تو چھوڑ ہی دیں ۔ حکمت کا یہی تقاضا ہے ۔ لیکن تمام سنیوں کو مورد الزام ٹھہرانا بے سود ہے ۔ اسی طرح ہمارے سنی مسلمانوں بھائیوں کو حضرت عائشہ کے خلاف ہونے والی مبینہ گستاخی کا بھی ایسا ہی ردعمل دینا چاہئے، اور اس شخص کے پورے فرقے، سیاسی جماعت وغیرہ پر الزام نہیں عائد کرنا چاہئے جس نے اس جرم کا ارتکاب کیا اور ملک کو افراتفری میں دھکیل دیا ۔ اسرائیل اسی قسم کے اقداما ت چاہتا ہے تا کہ انتشار مزید ہوا پکڑ لے ۔
سید حسن نصراللہ نے مقدسات کے احترام پر مزید تاکید کرتے ہوئے کہا کہ جس طرح مسلمانوں کے مسالک کو ایک دوسرے کے ساتھ رواداری اور احترام سے پیش آنا چاہئیے اسی طرح ہماری ذمہ داری ہے کہ عیسائی ;223; مسلم تعلقات پر بھی یہی بات لاگو ہو ۔ اگر ایک مذہب کا کوئی شخص دوسرے کی علامتوں کی توہین کرتا ہے، خاص طور پر جب نوجوانوں کی طرف سے گرما گرم مباحثہ ہو ۔ ہ میں ایسی ہر قسم کی حرکتوں کی حوصلہ شکنی کرنا ہو گی ۔ یہ ہوتا ہی رہتا ہے، کیوں کہ یہ اس ملک کا مزاج ہے ۔ لہذا، کسی بھی توہین کاشکار ہونے والے فرقے کے رہنماؤں کو سب سے پہلے آگے بڑھنا چاہئیے اور کشیدگی کو ختم کرنے کے لئے پہل کرنی چاہئیے ۔ یہ بہت اچھا ہوگا اگر ہم کسی ایسے مقام پر آجائیں جہاں ہم اب ایک دوسرے کی توہین نہیں کررہے ہیں ۔ لیکن اب یہ ایک بہت بڑی زمہ داری ہے، لہذا ہ میں تنازعات کو روکنے کے لئے ان واقعات پر اپنا رد عمل ظاہر کرتے رہنا چاہئے ۔
نصراللہ: امریکی حساب کتاب میں لبنانی مفاد کی کوئی اہمیت نہیں ہے ۔ انہیں ہماری کوئی پرواہ نہیں کرتے ہیں ۔ میں پھر کہوں گا ;245; لبنان میں امریکی مفاد نام کی کوئی چیز نہیں ، صرف اسرائیلی مفادات ہیں ۔ انہیں کوئی پرواہ نہیں ہے اگر ہم زندہ رہیں یا مریں ۔ دیکھیں کہ امریکی دنیا بھر میں اپنے اتحادیوں کے ساتھ کس طرح کا سلوک کرتے ہیں ۔ وہ ان کی تذلیل اور توہین کرتے ہیں ۔ یورپین کی طرف دیکھو ;245; ٹرمپ نے جرمنی میں امریکی افواج کو اپنے حلیفوں سے مشورہ کیے بغیر آدھا کردیا ۔ یہ وہ امریکی ہیں جن پر آپ شرط لگارہے ہیں ;238; ابھی واپس جاکر امریکیوں کی ویتنام میں اپنے ویتنامی آلہ کاروں کو ہیلی کاپٹروں کے ذریعہ باہر پھینکنے کی ویڈیوز دیکھیں ۔ اگر ان کو ہم سے اور ہمارے ہتھیاروں سے مسئلہ ہے، ٹھیک ہے تو وہ ہ میں سزا دیں ۔ وہ لبنانی عوام کو سزا کیوں دے رہے ہیں ;238; امریکی اسی طرح کام کرتے ہیں ۔ اگر انہیں کسی ملک کی حکومت سے مسئلہ درپیش ہو تو وہ لوگوں کو سزا دیتے ہیں : ایران، شام، وینزویلا، کیوبا، وغیرہ ۔