(روز نامہ القدس۔آنلائن خبر رساں ادارہ )خطے میں صہیونی عزائم کو روکنے کے لیے برسرپیکار لبنانی تنظیم کے سرپرست اعلی حسن نصر اللہ نے عید کے خطبے میں کہا کے لوگوں کے دلوں سے ظالم اسرائیلی ریاست کا ڈر نکل چکا ہے اور وہ اسرائیل کے برپا کردہ مظالم کا سامنا کرنے کے لیے تیار ہیں۔
انہوں نے عید کے اجتماع میں شریک لوگوں کو خوش آمدید کہتے ہو ئے انکوعید کی مبارک باد پیش کی اور کہا کہ اس دفعہ یہ عید مقاومت دو عیدوں کے درمیان ہے، عید الاضحی اور عید الغدیر کے درمیان ہوئی اور اس عید الاضحی کے موقع پر اسرائیل کے ساتھ حدودی علاقوں میں لوگوں کا جم غفیر تھا، سب نے وہاں آمن و امان کے ساتھ عید منائی۔
اس کا واضح مطلب یہ ہے کہ لوگ اسرائیل سے نہیں ڈرتے، یہ ایک عظیم نعمت ہے، اس کا شکر ادا کرنا چاہیے، یہ امن و امان بہت قربانیوں کے بعد میسر ہوا، اس میں کسی کا احسان نہیں ہمارے اوپر نہ امریکہ کا نہ ہی سیکورٹی کونسل کا اور نہ ہی عرب ممالک کہ بلکہ یہ لبنانیوں اور اہل جنوب کی قربانیوں کا نتیجہ ہے۔ ہم سب کو اس عظیم نعمت کا شکریہ ادا کرنا چاہیے۔
یہ ایک عظیم اور مسلسل جدوجہد کا نتیجہ ہے، اس لئے امریکہ ہم پر اقتصادی پابندیاں لگاتا ہے۔
اس موقع پر انہوں نے چند اہم نکات پیش کرتے ہوئے کہا کہ یہ جنگ صرف اسرائیل کی طرف سے نہیں تھی، یہ امتداد تھی افغانستان اور عراق کی جنگ کا ہدف نئے مشرق وسطی کا قیام ہے، اسرائیل کی صرف ایک دن کی نیت تھی، یہ امریکہ کا فیصلہ تھا۔
اس جنگ کا ہدف 1۔ حزب اللہ کو ختم کرنا۔
2۔ بشار الاسد کی حکومت کو ختم کرنا۔
3۔ عراقی مقاومت کو ختم کرنا۔
4۔ ایران کو تنہا کرنا۔
انہوں نے مزید کہا کہ یہ جنگ صرف ایک سبب کی وجہ سے رکی، وہ یہ کہ امریکہ اور اسرائیل کو شکست کا یقین ہو چکا تھا۔ کیونکہ اگر اسرائیل اس جنگ کو جاری رکھتا، تو اسے ایک بڑے تباہی کا سامنا کرنا پڑتا، اس لئے جنگ روکنا پڑی۔
مجھے بعض دوستوں نے کہا کہ فائر بندی قبول نہیں کرنی چاہیے، کیونکہ کچھ ہفتوں کے بعد اسرائیل کی حالت کچھ اور ہوگی۔
ایک عربی نے مجھے کہا کہ جنگ کے دوران میں امریکہ گیا جون بولٹن سے ملاقات ہوئی اس نے کہا کیا کرنے آئے ہو میں نے کہا جنگ روکنا ہے، جون بولٹن نے کہا: حزب اللہ کو ختم کرنا ہے یہ جنگ جاری ہے، لیکن آخری دنوں میں ایک اسرائیل کے نمائندے نے مجھے آدھی رات کو کہا جنگ روکنا ہے، اور جون بولٹن نے بھی یہی کہا: میں نے پوچھا کہ کیا حزب اللہ کو ختم کر دیا گیا: جون بولٹن نے کہا نہیں اسرائیل میں دم نہیں۔
(3)۔ آپ لبنانیوں کی قوت اور ہمت، بصیرت، قربانی کے جذبے نے اس جنگ کو روکنے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔
سارے لبنانی ہمارے ساتھ نہیں تھے، ہاں لبنانی صدر امیل لحود اور نبیہ بری کا موقف بہت اچھا رہا۔ اور کچھ سیاسی جماعتیں اور عوام کی اکثریت تھی، ان سب سے اہم اللہ کی نصرت اور اس پر توکل تھا، جس نے ہم اس سخت جنگ میں حوصلہ عطا فرمایا۔
(4)۔ اس چوراہے جہاں آپ بیٹھے ہیں یہاں گھمسان کی جنگ ہوئی، کیونکہ ہوائی حملوں میں ناکامی کے بعد، بنت جبیل شہر پر بری حملہ کرنا تھا کیونکہ یہ اہم جگہ اور اسٹرٹیجک شہر تھا، اور دوسرا مقصد اس شہر کو فتح کرنے کے بعد اسی شہر میں یہ بیان دینا تھا کہ اسرائیل مکڑی کا جال نہیں۔ اس لئے سخت جنگ شروع ہوئی، اور یہاں مجاہدین نے شجاعت کے عجیب جوہر دکھائے، کچھ میٹر کے فاصلے پر لڑے اور دشمنوں کو بھاگنے پر مجبور کیا،
بنت جبیل کی شکست نے انہیں کسی بھی پیش قدمی کرنے سے رک دیا۔
اور دوسرا مکڑی کے جال کا عقیدہ اور پختہ ہوگیا، اور تیرا سال گزرنے کے بعد آج بھی اسرائیل مکڑی کے جال سے زیادہ کمزور ہے، اور یہ بات اسرائیل کے دل ودماغ میں بیٹھ گئی ہے۔
آج پر اسرائیل سے کہتا ہوں اگر لبنان اندر گھسنے کی کوشش کی تو ٹی وی چینلز پر لوگ تمہاری تباہی کا تماشہ دیکھیں گے۔
(5)۔ جنگ سے مقصد ہمیں ختم کرنا تھا آج ہم اقلیمی طاقت بن گئے ہیں، دشمن کے تمام جنرلز اس بات کا اعتراف کرتے ہیں،
المنار کے چینل کو میرے انٹریو پر تبصرہ کرتے ہوئے ایک سابق جنرل نے کہا: کہ حزب اللہ کی قوت اور گائیڈڈ میزائلوں کے سامنے اسرائیلی فوج انتہائی کمزور ہے، ایک اور جنرل نے کہا: کہ سارا اسرائیل ان میزائلوں کی زد میں ہے۔
جس تردد شک اور حیرت کا شکار آج ہے کبھی نہیں۔ اسرائیل کے جنرلوں کو یقین ہے وہ آئندہ کسی بھی جنگ میں لبنان کے مقابلے نہیں جیت سکتے۔
غزہ میں کچھ دن پہلے ایک اسرائیلی فوج کو اٹھانے کی کوشش ہوئی جو کہ نہایت اہم اقدام ہے۔
غزہ،شام، عراق، لبنان اور یمن اس وقت قوی تر ہیں اور ایران جو ایک ناقابل شکست قوت بن کر سامنے آیا ہے،
محور مقاومت جتنا آج قوی ہے کبھی نہ تھا۔
(6)۔ محور مقاومت کی قوت پر یقین رکھو، ہمیں اس محور سے تعلق پر فخر ہے۔ اس محور کی وجہ سے کوئی جنگ مسلط کرنے کی جرات نہیں کرسکتا، لبنان میں اسرائیل حزب اللہ کی مقاومت سے شدید خوفزدہ ہے،
شام میں اسی مقاومت کی وجہ آئندہ جنگ مسلط نہیں ہو سکتی، غزہ عزیز رہے گا، عراق میں دوبارہ امریکہ سر نہیں اٹھا سکتا ہے۔
اور اگر اس محور سے تعلق نہیں تو روز تمہیں ذلیل کیا جائے گا، لوٹا جائے گا، دوہا جائے گا۔
تو یہ محور مقاومت کی قوت ہے کہ کوئی اس علاقے میں جنگ مسلط نہیں کرسکتا۔
ایران پر امریکہ کی طرف سے جنگ مسلط کرنے کا شور آج کہاں ہے،
اس جنگ نہ ہونے کی وجہ ایران کی عسکری قوت ہے، اور شجاعت ہے، کبھی جدید ترین ڈرون گراتا ہے، کبھی بحری جہاز اپنے قبضے میں لیتا ہے۔
خطبے کے آخر میں انہوں نےتنبیہ کی کرتے ہوئے کہا کہ ایک دفعہ پھر کہتا ہوں ایران پر جنگ مسلط کرنے کا مطلب پورے مشرق وسطی کو جنگ کی آگ میں لے جانے کے مترادف ہے۔