(روز نامہ قدس ۔آنلائن خبر رساں ادارہ) ہفتہ کے روز برطانوی دارالحکومت لندن میں ہزاروں مظاہرین نے ایک بڑی قومی ریلی میں شرکت کی، جس کا مقصد غیر قانونی صیہونی ریاست اسرائیل کی جانب سے غزہ میں انسانی امداد کی روک تھام، بجلی کی بندش اور جاری نسل کشی کے خلاف احتجاج کرنا تھا۔
ہزاروں افراد پر مشتمل یہ ریلی جس میں یہودیوں کی بھی بڑی تعداد شامل تھی، لندن کی سڑکوں سے گزرتے ہوئے برطانوی حکومت کے دفتر کے سامنے اختتام پذیر ہوئی، جہاں مظاہرین نے غیر قانونی صیہونی ریاست اسرائیل کو اسلحے کی فراہمی بند کرنے اور غیر قانونی صیہونی ریاست پر پابندیاں عائد کرنے کا مطالبہ کیا۔
احتجاج کے اختتام پر مختلف سیاسی جماعتوں، پارلیمنٹ کے اراکین، اور مزدور یونینوں کے نمائندوں نے تقاریر کیں۔ برطانیہ میں فلسطینی فورم کی نمائندہ زینب جمال نے برطانوی وزیر اعظم سے مطالبہ کیا کہ وہ غزہ میں جاری نسل کشی کی حمایت بند کرے، بین الاقوامی قوانین کی پاسداری کرے، اور برطانیہ میں فلسطین کے حامی گروہوں سے مذاکرات کرے۔
"اسٹاپ دی وار” اتحاد کی رکن لینزی جرمن نے کہا:
"ہم جانتے ہیں کہ وہ ہمیں مظاہرہ کرنے سے روکنا چاہتے ہیں، وہ ہماری ریلیوں پر پابندیاں لگانے اور انہیں محدود کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ وہ ہمیں جھوٹے الزامات کے ذریعے خاموش کرانا چاہتے ہیں، لیکن ہم رکنے والے نہیں، ہمارا احتجاج جاری رہے گا جب تک فلسطینی عوام کو انصاف نہیں ملتا۔”
برطانیہ میں فلسطینی سفیر حسام زملط نے مظاہرین سے خطاب کرتے ہوئے کہا: "آپ نہ صرف برطانیہ کی تاریخ کی سب سے بڑی یکجہتی تحریک ہیں، بلکہ سب سے طویل بھی ہیں۔ حکومت پر آپ کی آواز کا اثر ہو رہا ہے، اور اس نے جنگ بندی کی حمایت اور عالمی عدالت کے فیصلے کا احترام کرنے کا عندیہ دیا ہے۔ لیکن جب تک غزہ میں نسل کشی جاری ہے، ہمیں مزید اقدامات کا مطالبہ کرنا ہوگا۔”
انہوں نے مزید کہا: "میں حال ہی میں مغربی کنارے سے واپس آیا ہوں، جہاں میں نے غیر قانونی صیہونی ریاست اسرائیل کی بربادی، جبری بے دخلی اور نسل کشی دیکھی ہے۔ فلسطینی کبھی اپنا وطن نہیں چھوڑیں گے۔ غزہ فروخت کے لیے نہیں، بلکہ یہ دوبارہ تعمیر ہوگا اور مغربی کنارے کے ساتھ متحد ہوگا۔ اگر فلسطینی ہجرت کریں گے، تو وہ اپنے ہی علاقوں میں واپس آئیں گے – حيفا، یافا، اللد اور الرملة میں۔”
سفیر زملط نے کہا:”اسرائیل کو اسلحے کی ترسیل فوری طور پر بند ہونی چاہیے، اور جنگی مجرموں کو سزا دی جانی چاہیے۔ انہیں لندن یا اقوام متحدہ میں کوئی جگہ نہیں ملنی چاہیے، بلکہ انہیں جیل میں ہونا چاہیے۔ برطانوی حکومت کو فوراً فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنا چاہیے، کیونکہ یہ فلسطینی عوام کا حق ہے، کسی کا احسان نہیں۔”
برطانوی پارلیمنٹ کے رکن اور سابق لیبر رہنما جیرمی کوربن نے بھی مظاہرین سے خطاب کیا:
"ہم ٹی وی پر دیکھ رہے ہیں کہ ایک پوری قوم قتل اور بھوک کا شکار ہے، لیکن وہ پھر بھی اپنے وطن کو چھوڑنے سے انکار کر رہی ہے۔ ہم اپنی آواز بلند کریں گے اور امریکہ، اسرائیل اور برطانوی حکومت کے خلاف خاموش نہیں رہیں گے۔”
انہوں نے مزید کہا: "میں برطانوی حکومت کو پیغام دینا چاہتا ہوں: فوری طور پر بین الاقوامی قوانین کی پاسداری کریں، اور اسرائیل کو اسلحے کی فروخت بند کریں۔ برطانوی فوجی اڈوں کو اسرائیلی جنگی مشین کے لیے استعمال کرنا بند کریں۔ تاریخ کے غلط رخ پر مت کھڑے ہوں۔ ہم ہمیشہ فلسطینی عوام کے ساتھ کھڑے رہیں گے۔”
83 سالہ ہولوکاسٹ کے ایک یہودی نجات یافتہ، اسٹیفن کبوش، جنہیں حال ہی میں برطانوی پولیس نے فلسطین کے حق میں مظاہرہ کرنے پر گرفتار کیا تھا، نے کہا:”یورپی ممالک نے ہولوکاسٹ سے کیا سبق سیکھا؟ آج غیر قانونی صیہونی ریاست اسرائیل غزہ میں ایندھن، بجلی اور امداد کاٹ رہا ہے، اور یورپ ایک بار پھر ظالموں کا ساتھ دے رہا ہے۔”
انہوں نے مزید کہا:”اسرائیل کی بربریت کی حمایت کرنے سے مجھے، بطور ایک یہودی، شدید تکلیف ہوتی ہے۔ میں اعلان کرتا ہوں کہ ہم اپنے نام کو اسرائیل کی ظالمانہ پالیسیوں کے لیے استعمال کرنے کی اجازت نہیں دیں گے۔”
مظاہرے میں سیکڑوں والدین نے اپنے بچوں کے ساتھ شرکت کی۔ احتجاج کے اختتام پر بچوں کے لیے فلسطینی ثقافتی سرگرمیاں، جیسے کہ فلسطینی نشانات کی ڈرائنگ، کا اہتمام کیا گیا۔
"پیرنٹس فار فلسطین” گروپ کی ایک رکن، عائشہ، نے کہا: "بچوں کو اس طرح کے مظاہروں میں شامل کرنا ضروری ہے تاکہ وہ کم عمری میں ہی شعور حاصل کریں۔ ہم دیکھتے ہیں کہ گزشتہ ڈیڑھ سال سے غزہ کے بچے ظلم کا شکار ہیں، اور دنیا نے انہیں تنہا چھوڑ دیا ہے۔ اس لیے ہم چاہتے ہیں کہ ہمارے بچے فلسطینی جدوجہد سے آگاہ ہوں، انصاف، آزادی، اور نوآبادیاتی نظام کے خاتمے کی اقدار پر پروان چڑھیں۔”