(روز نامہ قدس ۔آنلائن خبر رساں ادارہ ) اگر مسجد اقصیٰ یعنی بیت المقدس کی فضیلت بیان کی جائے تو شاید ایک دو مقالوں سے کام نہیں بنے گابلکہ یہ ایک تفصیلی موضوع ہےتاہم ہمارے مقالہ کا مقصداس مقام کی اہمیت کو بیان کرتے ہوئے موجودہ حالات میں اس مقدس مقام پر ہونے والے حادثات کو بیان کیا جائے او ر نوجوان نسل کے لئے آگہی کا راستہ فراہم کیا جائے۔
مسجد اقصیٰ ایک ایسا مقام ہے کہ جو عالم اسلام کے لئے بیت اللہ اور مسجد نبوی کے بعد اہم ترین مقام کی حیثیت رکھتا ہے ۔ یہ وہی مقام ہے کہ نبی کریم (ص) رخ فرما کر عبادت کرتے رہے ۔ یہ مقام ایسی مبارک اور مقدس سرزمین پر واقع ہے جس کو فلسطین کہتے ہیں اور فلسطین کو انبیاء و اسریٰ کی سرزمین کہا جاتا ہے ۔ یہی وہ مقام ہے کہ جس کے بارے میں مسلمانوں کی آسمانی کتاب یعنی قرآن مجید میں ذکر ہو اہے جس کا مفہوم اس طرح سے ہے کہ، ’’پاک ہے وہ ذات جو اپنے بندے کو لے گئی مسجد حرام سے مسجد اقصیٰ تک ‘‘ ۔ یعنی نبی کریم حضرت محمد مصطفی (ص) کو شب معراج اسی مقام پر لایا گیا تھا جہاں آپ نے انبیائے کرام کے ارواح مقدس کی جماعت کی امامت فرمائی ۔ اس مقام کو بیت المقدس بھی کہا جاتا ہے۔
اگر مسجد اقصیٰ یعنی بیت المقدس کی فضیلت بیان کی جائے تو شاید ایک دو مقالوں سے کام نہیں بنے گا ۔ یہ ایک تفصیلی موضوع ہے ۔ ہمارے مقالہ کا مقصد یہ ہے کہ اس مقام کی اہمیت کو بیان کرتے ہوئے موجودہ حالات میں اس مقدس مقام پر ہونے والے حادثات کو بیان کیا جائے او ر نوجوان نسل کے لئے آگہی کا راستہ فراہم کیا جائے۔
سرزمین فلسطین عام تاریخ کے اعتبار سے سنہ1948ء سے غاصب صہیونی ریاست اسرائیل کے شکنجہ میں ہے جبکہ آج تک صہیونیوں نے جہاں فلسطینیوں کا قتل عام کیا ہے وہاں ساتھ ساتھ علاقہ کی دیگر اقوام اور ممالک کی حکومتوں کے خلاف بھی جارحیت کی ہے ۔
اسرائیل کے ظلم و ستم فقط انسانی جان تک محدود نہیں ہیں بلکہ فلسطین کی سرزمین پر موجود مقدس مقامات کہ جن کا تعلق اسلام، مسیحی مذہب اور خود یہودی مذہب سے بھی ہے سب کے سب مقدس مقامات صہیونیوں کی درندگی کا شکار ہیں ۔
قبلہ بیت المقدس فلسطین پر صہیونیوں کی ناجائز ریاست اسرائیل کے قیام سے تاحال کسی نہ طرح صہیونیوں کی مذہبی جنونیت اور درندگی کا نشانہ بنتا رہاہے جس میں مسجد اقصیٰ میں صہیونیوں کا جوتوں سمیت داخل ہونا، مسجد کے در ودیوار کو نقصان پہنچانا، نمازیوں کو مسجد جانے سے روکنا، لاؤڈ اسپیکر کو بند کرنا، نماز باجماعت اور نماز جمعہ کے اجتماعا ت پر پابندی لگانے سمیت مسجد میں فلسطین کے باسیوں کا داخلہ ممنوع قرار دینے جیسے ظلم و ستم عام ہو چکے ہیں اور روز مرہ کے واقعات میں شمار ہوتے ہیں البتہ صہیونیوں نے سنہ1969ء میں قبلہ اول بیت المقدس کو منہدم کرنے کے لئے نذر آتش بھی کیا تھا یہ 21اگست کا دن تھا ۔
اسی طرح کئی ایک مرتبہ صہیونی یہ کوشش کرچکے ہیں کہ قبلہ اول بیت المقدس کی نیچے زمین میں بنیادوں کو کھود دیا جائے تا کہ مسجد خود بخود منہدم ہو جائے اور ا سطرح سے فلسطینیوں کا اور عالم اسلام کا قبلہ اول بیت المقدس سے معاملہ ہی ختم ہو جائے۔
صہیونیوں کی جانب سے مذہبی مقدس مقامات کی توہین اور بے حرمتی کرنے کے لئے باقاعدہ پولیس سیکورٹی فراہم کی جاتی ہے تا کہ صہیونیوں کے گروہ در گروہ مقدس مقامات کی توہین اور بے حرمتی کرتے رہیں اور ان کو کوئی روکنے والا نہ ہو جبکہ سرزمین فلسطین پر جہاں قبلہ اول بیت المقدس صہیونی سازشوں کا نشانہ ہے وہاں ساتھ ساتھ مسیح مذہب کے مقدس مقامات کہ جن میں پیغمبر خدا جناب حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی جائے پیدائش کا مقام کہ جہاں پر چرچ آف نیٹی ویٹی موجود ہے اس کو بھی صہیونیوں کی جانب سے نشانہ بنایا جاتا ہے ۔
ماضی قریب ہی کی بات ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی ولادت کے عنوان سے کرسمس کے موقع پر اس چرچ میں صہیونیوں نے مسیحی فلسطینیوں کو داخلہ سے روک دیا تھا ، یہ بالکل اسی طرح سے ہے جیسا کہ مسلمان فلسطینیوں کو قبلہ اول بیت المقدس میں عباد ت گزاری سے روک دیا جاتا ہے۔
حد تو یہ ہے کہ مسلمان اور مسیحی فلسطینیوں کے مقدس مقامات کو صہیونی دہشت گرد جب چاہتے ہیں توہین کا نشانہ بناتے ہیں اوریہاں تک کہ بیت اللحم شہر میں یہودی مقدس عبادت گاہیں بھی صہیونی شرپسندوں سے محفوظ نہیں رہی ہیں ۔
واضح رہے کہ یہودی قوم میں ایسے یہودی موجود ہیں جو فلسطین پر اسرائیل کی ریاست کے قیام کو ناجائز اور غاصبانہ تسلط تصور کرتے ہیں ۔
حال ہی میں تازہ ترین اطلاعات کے مطابق صہیونیوں کی غاصب او ر جعلی ریاست اسرائیل نے قبلہ اول بیت المقدس کے خلاف اپنی سازشی سرگرمیوں کو مزید تیز کر دیا ہے اور اب کہا جا رہاہے کہ مسجد اقصیٰ کا باب الرحمۃ مقام منہدم کرنے کی تیاری کی جا رہی ہے جس کے بعد اس جگہ پر صہیونیوں کےمقدس مقام کو تعمیر کرنے کی منصوبہ بندی کر لی گئی ہے ۔
اسی ضمن میں گذشتہ دنوں موصول ہونے والی خبروں میں یہ خبر بھی سامنے آئی ہے کہ سرکاری انجینئر نے مسجد اقصیٰ کا سروے کرنے کی کوشش کی جس پر مقامی فلسطینیوں نے شدید احتجاج کیا ہے اور اس بات کا اعلان کر دیا ہے کہ مسجد اقصیٰ کے ایک ایک انچ کی باقاعدہ حفاظت کی جائے گی اور صہیونیوں کو اجازت نہیں دی جائے گی کہ وہ فلسطینی عرب مقدس مقامات کی توہین کریں اور صہیونی عبادت گاہوں میں تبدیل کریں ۔
ان تمام تر معاملات میں جو بات سب سے زیادہ غور طلب ہے وہ یہ ہے کہ گذشتہ دو برس میں جب سے امریکی سرپرستی میں کچھ عرب ریاستوں نے اسرائیل کی قربت اختیار کرنا شروع کی ہے اس کے بعد سے ہی یہ بات مشاہدے میں آ رہی ہے کہ اسرائیل ایک طرف فلسطینی زمینوں پر صہیونیوں کی آباد کاری کے نئے نئے منصوبے شروع کر رہا ہے تو ساتھ ساتھ عالم اسلام کے قلب بیت المقدس کو یہودیانہ کی کوششیں بھی تیز کر دی ہیں ۔
افسوس ناک بات یہ ہے کہ یہ سب کچھ ہونے کے باوجود کچھ عرب ریاستیں جو اسرائیل کو تسلیم کر چکی ہیں خاموش تماشائی بنی ہوئی ہیں اور ایسا لگتا ہے کہ اسرائیل کو تسلیم کرنے والوں بشمول متحدہ عرب امارات، بحرین، ترکی، مراکش اور دیگر کی جانب سے اسرائیل کوکھلی چھٹی دے دی گئی ہے کہ وہ جیسے چاہے فلسطین پر اپنا تسلط بڑھاتا رہے اور مقدس مقامات کو بھی نقصان پہنچائے ۔
مسجد اقصیٰ کے امام اور خطیب الشیخ ڈاکٹر اسماعیل نواھضہ نے کہا ہے کہ مسجد اقصیٰ کو صہیونی ریاست کی غلیظ اور گھناؤنی سازشوں کا سامنا ہے جبکہ قبلہ اول کے خلاف اسرائیل کی نئی اور تازہ سازشوں میں مسجد اقصیٰ میں اسرائیلی سروے انجینیرز کا مسجد اقصیٰ میں داخلہ اور مقدس مقام کی بے حرمتی ہے۔
اسرائیل فلسطینیوں کو تو مسجد اقصیٰ میں نماز اور عبادت کی ادائیگی سے روک رہا ہے اور فلسطینی اراضی میں بلا توقفن یہودیوں کے لیے ہزاروں مکانات کی تعمیر کی منظوری دی جا رہی ہے ۔
مسجد اقصیٰ کو قابض دشمن کی جانب سے گھٹیا سازشی چالوں کا سامنا ہے جس میں صہیونی آباد کاروں کو قبلہ اول پردھاوا بولنے کے لیے فول پروف سیکیورٹی مہیا کر کے بیت المقدس کے تقدس کو پامال کیا جا نا،حرم قدسی میں تلمودی تعلیمات کے مطابق مذہبی رسومات کی ادا ئیگی کے ساتھ ساتھ مسجد اقصیٰ کی زمانی اور مکانی تقسیم کے لیے روز مرہ کی بنیاد پر سازشیں جاری ہیں ۔
بزرگ، بچے اور مائیں بہنیں توہین آمیز ظلم کا سامنا کررہے ہیں ۔
یہاں فلسطینی بچوں کو بغیر کسی جرم کے جان سے مار دیا جاتا ہےجبکہ شہریوں کو ایسی کال کوٹھڑیوں میں ڈالا جاتا ہے جہاں انہیں بنیادی انسانی حقوق تک میسر نہیں ہیں جس پر کہ عالمی برادری اور خاص طور سے عرب مسلم حکمران خاموش ہیں البتہ ا س تمام تر صورتحال میں بھی فلسطینیوں کے حوصلے بلند ہیں اور ہمت جواں ہے اور وہ صہیونیوں کی تمام سازشوں کے سامنے سیسہ پلائی ہوئی دیوار بنے ہوئے ہیں اور اس عزم کے ساتھ اپنی جد وجہد کو آگے بڑھا رہے ہیں کہ اب وقت قریب آن پہنچا ہے کہ جس کا خواب ان کے بزرگوں اور گذشتہ نسل نے دیکھا تھا یعنی فلسطین اور قبلہ او ل کی مکمل آزادی اور حریت ۔
تحریر: ڈاکٹر صابر ابو مریم
سیکرٹری جنرل فلسطین فاءونڈیشن پاکستان