غزہ ۔ روزنامہ قدس ـ آنلائن خبر رساں ادارہ
کلب برائے اسیران نے بتایا ہے کہ "ڈاکٹرز فار ہیومن رائٹس اسرائیل” کی رپورٹ کے مطابق سات اکتوبر سنہ2023ء کے بعد قابض اسرائیلی جیلوں اور حراستی مراکز میں 98 فلسطینی شہید ہوئے، جن میں زیادہ تر عام شہری تھے۔ یہ تازہ اعداد و شمار اس بات کی تصدیق کرتے ہیں کہ قابض اسرائیل نے قیدیوں کے خلاف منظم طور پر خفیہ طریقے سے قتل اور تشدد کے جرائم کیے ہیں، جو دنیا کی نظر سے پوشیدہ رہے۔
کلب برائے اسیران نے بدھ کو جاری کردہ بیان میں کہا کہ بغیر کسی منصفانہ مقدمے کے یا اہل خانہ کو قیدیوں کے مقدر سے آگاہ کیے بغیر ان کا شہید ہونا ایک غیر قانونی قتل کے مترادف ہے اور یہ عالمی قوانین کے مطابق جنگی جرم اور انسانی جرم کے زمرے میں آتا ہے، جیسا کہ روم اسٹیٹوٹ آف انٹرنیشنل کرمنل کورٹ میں درج ہے۔
بیان میں مزید کہا گیا کہ بین الاقوامی انسانی قانون کے تحت یہ ایک سنگین جرم اور جنیوا کنونشنز کی صریح خلاف ورزی ہے، خاص طور پر مشترکہ آرٹیکل 3 اور جنیوا کنونشن چہارم کی دفعہ 27، جو قابض طاقت کو ہر حالت میں قیدیوں کی جان اور عزت کی حفاظت کی پابند کرتی ہے۔
کلب برائے اسیران نے قابض اسرائیل کو ذمہ دار ٹھہرایا کہ یہ تعداد وحشیانہ تشدد، بھوک، اور طبی غفلت کے نتیجے میں شہید ہوئی ہے، اور کہا کہ اصل تعداد اس سے کہیں زیادہ ہے، کیونکہ قابض اسرائیل قیدیوں کے بارے میں مکمل خاموشی اور جبری گمنامی کی پالیسی جاری رکھے ہوئے ہے، خاص طور پر 7 اکتوبر کے بعد گرفتار شدگان کے معاملے میں۔
کلب برائے اسیران نے بین الاقوامی اداروں، خاص طور پر ریڈ کراس اور دفتر برائے انسانی حقوق کی ذمہ داری ہے کہ وہ فوری بین الاقوامی تحقیقات کریں، قیدیوں تک رسائی یقینی بنائیں، ان کے حقوق کی مسلسل خلاف ورزیوں کو روکیں اور ان کے ذمہ داروں کو بین الاقوامی جرائم عدالت میں مقدمہ چلائیں۔
بیان میں یہ بھی زور دیا گیا کہ قابض اسرائیل کی جبری گمنامی اور تشدد کی پالیسی کے شکار قیدیوں کے مقدر کو آشکار کرنے، ان کے دورے اور حقوق کی نگرانی کرنے، اور انہیں رہا کرنے کے اقدامات فوری طور پر کیے جائیں۔
کلب برائے اسیران نے عالمی سطح پر عوامی مظاہروں اور سرگرمیوں کو فعال کرنے کی ضرورت پر بھی زور دیا تاکہ قیدیوں کی حمایت اور ان کے مقدمے کے تحفظ کے لیے دباؤ بنایا جا سکے، حتیٰ کہ انہیں رہا کرایا جا سکے۔