بیروت ۔روزنامہ قدس ـ آنلائن خبر رساں ادارہ
لبنانی اسلامی مزاحمتی تنظیم حزب اللہ کے سیکرٹری جنرل نعیم قاسم نے قابض اسرائیل کے ساتھ مذاکرات پر آمادگی کو شدید تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے امریکی ایلچی ٹوم براک کی پیش کردہ دستاویز کے نکات کی منظوری کو کھلم کھلا ’’ پسپائی‘‘ قبول کرنے کے مترادف قرار دیا۔ انہوں نے خبردار کیا کہ حکومت اگر جارحیت کے خاتمے کے نام پر جھکنے اور پیچھے ہٹنے کی راہ اختیار کرے گی تو یہ ایک سنگین غلطی ہو گی جو ملک کو کمزور کر دے گی۔
نعیم قاسم نے واضح کیا کہ لبنانی ریاست پر لازم ہے کہ وہ دشمن کی جارحیت کا مقابلہ کرنے کے لیے ٹھوس اور موثر قومی منصوبے ترتیب دے۔ انہوں نے زور دیتے ہوئے کہا کہ لیطانی دریا کے جنوب میں قابض اسرائیلی فوج کی سرگرمیوں کو برداشت کرنا جبکہ حملے مسلسل جاری ہوں ایک نئی اور خطرناک پسپائی ہے۔
اسی حوالے سے قابض اسرائیلی فوج نے اعلان کیا کہ اس نے جنوبی لبنان میں حزب اللہ کے ایک کارکن کو شہید کیا ہے۔ جنگی ماحول میں اضافہ ہونے کے خدشات پھر ابھر آئے ہیں حالانکہ جنگ بندی کو نافذ ہوئے تقریباً ایک سال گزر چکا ہے۔
فوجی بیان کے مطابق اتوار کی شام کی ایک فضائی کارروائی میں منصوری کے علاقے میں محمد علی شُویخ مارا گیا۔ قابض فوج نے دعویٰ کیا کہ شویخ مقامی آبادی اور حزب اللہ کے درمیان مالی و عسکری امور کے حوالے سے رابطوں کا ذمہ دار تھا اور اس نے بعض نجی املاک کو عسکری مقاصد کے لیے استعمال کرنے کی کوشش بھی کی۔ بیان میں مزید کہا گیا کہ حزب اللہ کی حالیہ سرگرمیاں لبنان اور قابض اسرائیل کے مابین طے شدہ سمجھوتوں کی کھلی خلاف ورزی ہیں۔
بنجمن نیتن یاھو نے بھی گذشتہ دنوں حزب اللہ پر الزام لگایا تھا کہ وہ اپنی عسکری طاقت دوبارہ بحال کرنے اور مزید اسلحہ اکٹھا کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔ اس تناظر میں قابض اسرائیلی فوج نے 6 نومبر سنہ 2025ء کو حزب اللہ کی ’’تنصیبات اور اسلحہ کے ذخائر‘‘ پر شدید بمباری کی تھی جو کئی ماہ میں اپنی نوعیت کی سب سے سنگین کارروائی قرار دی گئی۔
کشیدگی میں ممکنہ اضافے کے خدشات کے دوران لبنانی صدر جوزیف عون نے قابض اسرائیل کے ساتھ مذاکرات کے ذریعے فضائی حملے روکنے کی خواہش ظاہر کی تاہم اس پیش کش پر تاحال کوئی جواب نہیں دیا گیا۔
اس سے قبل اگست سنہ 2025ء میں لبنانی حکومت نے امریکی دباؤ کے تحت ایک فیصلہ منظور کیا تھا جس کے تحت حزب اللہ کو غیر مسلح کرنے اور لبنانی فوج کو پانچ مراحل پر مشتمل منصوبہ دے کر اسلحہ واپس لینے کی ذمہ داری سونپی گئی۔ حزب اللہ نے اس فیصلے کو سختی سے مسترد کرتے ہوئے اسے ’’غلطی‘‘ قرار دیا تھا۔