غزہ –روزنامہ قدس ـ آنلائن خبر رساں ادارہ
سردیوں کے قریب آتے ہی اور غزہ کی پٹی پر جاری قابض اسرائیل کی نسل کش جنگ کے تباہ کن اثرات بڑھنے کے ساتھ ساتھ عالمی سطح پر غزہ میں روز بروز سنگین ہونے والی انسانی تباہی کے بارے میں انتباہات شدت اختیار کر رہے ہیں۔ چاروں طرف پھیلا ہوا کھنڈر، تباہ شدہ بنیادی ڈھانچہ، برباد گھروں کی ویرانی، دسیوں ہزار خاندانوں کی جبری بے دخلی اور تقریباً مفلوج صحت کا نظام اس محاصرے اور روزانہ کی قابض اسرائیلی خلاف ورزیوں کے سائے میں مزید بگڑ رہا ہے۔
میدان میں صورتحال یہ ہے کہ لاکھوں شہری خستہ حال، پھٹے پرانے اور سردی بارش کے سامنے بے بس مہاجر خیموں میں زندگی گزار رہے ہیں۔ اقوام متحدہ کی ایجنسیاں اور عالمی ریڈ کراس خبردار کر رہے ہیں کہ غزہ کو اس برس وہ سردی درپیش ہے جو ’’دہائیوں میں سب سے بدترین‘‘ ہو سکتی ہے۔ انسانی ضرورتوں کا حجم اس نہج پر پہنچ چکا ہے جہاں امدادی اداروں کی گنجائش سے کہیں زیادہ ہے۔
سنگین انسانی بحران کا بڑھتا ہوا گھیراؤ
اقوام متحدہ کے دفتر برائے انسانی امور (اوچا) نے خبردار کیا ہے کہ جیسے جیسے سردی بڑھ رہی ہے غزہ کی صورتحال تیزی سے بگڑ رہی ہے۔ لاکھوں بے گھر خاندان بارش اور تیز ہواؤں کے سامنے اذیت برداشت کر رہے ہیں جبکہ خیموں، گرم کپڑوں اور حرارت کا سامان انتہائی قلت کا شکار ہے۔
اوچا کے مطابق جنگ کے نتیجے میں وسیع تباہی نے غزہ کے بنیادی ڈھانچے کو تقریباً مفلوج کر دیا ہے۔ صرف چار فیصد زرعی اراضی ایسی رہ گئی ہے جو قابل رسائی بھی ہے اور مکمل تباہ بھی نہیں، جو غذائی سکیورٹی کی ہولناک بحران کو مزید گہرا کر رہی ہے۔
اس کے علاوہ اقوام متحدہ نے افسوس کا اظہار کیا ہے کہ سیز فائر کے باوجود امداد کی ترسیل انتہائی سست ہے۔ امدادی منصوبے کے تحت غزہ کے باہر 190 ہزار ٹن امدادی سامان ذخیرہ کیا گیا تھا مگر قابض اسرائیلی پابندیوں کے سبب صرف 37 ہزار ٹن ہی داخل ہو سکا۔
اقوام متحدہ کے ترجمان فرحان حق نے بتایا کہ امداد کو صرف دو سرحدی گذرگاہوں تک محدود رکھا گیا ہے، غیر سرکاری اداروں کے کارکنوں کو داخلے سے روکا جا رہا ہے اور قابض اسرائیل اور غزہ کے شمال یا مصر اور جنوب کے درمیان کوئی براہِ راست رابطہ نہیں ہونے دیا جا رہا۔
تباہ حال صحت کا نظام اور ہزاروں مریض منتظرِ نجات
عالمی ادارہ صحت نے بھی صورتحال کو انتہائی خطرناک قرار دیتے ہوئے بتایا کہ تقریباً 16 ہزار 500 مریض فوری انخلاء کے منتظر ہیں جو غزہ کے اندر علاج کی سہولیات نہ ہونے کے باعث بیرونِ پٹی علاج چاہتے ہیں۔ مقامی ہسپتال تباہ ہو چکے یا ادویات اور بنیادی سامان کے بغیر بے بس پڑے ہیں۔
ادارے نے فوری طور پر رفح اور تمام دیگر گذرگاہیں کھولنے کا مطالبہ کیا ہے کیونکہ یہی راستے علاج اور ادویات کی فراہمی کی واحد امید ہیں۔
سیز فائر کے باوجود قابض اسرائیل مسلسل محاصرہ سخت کر رہا ہے اور خروقات کے ذریعے انسانی اور صحت کے بحران کو مزید سنگین بنا رہا ہے۔
ریڈ کراس: خیمے ٹوٹ رہے ہیں اور بارش نے پناہ گاہیں ڈبو دیں
ریڈ کراس کی میڈیا افسر امانی ناعوق نے غزہ کے المیے کی لرزہ خیز صورت بیان کرتے ہوئے کہا کہ صورتحال مسلسل بگڑ رہی ہے اور شہری ناقابلِ برداشت حالات میں زندگی کی کشمکش میں مبتلا ہیں۔ موجودہ خیمے سردی اور بارش کا مقابلہ نہیں کر پا رہے اور تازہ بارشوں نے عارضی پناہ گاہوں کو مکمل طور پر ڈبو دیا۔
انہوں نے فوری طور پر مضبوط خیموں، عایق مواد، موٹے ترپال، رسیاں، کھونٹیاں، گرم کپڑوں، کمبل، تکیے اور حرارت و کھانا پکانے کے سامان کی فراہمی پر زور دیا۔
انہوں نے خبردار کیا کہ سیلاب زدہ خیموں اور تباہ شدہ سیوریج نظام کے باعث پانی سے پھیلنے والی بیماریوں کا شدید خطرہ موجود ہے جبکہ لوگ ’’دو برس سے تھکن اور اذیت میں ڈوبے ہوئے‘‘ ہیں اور مہلک امراض کے پھیلاؤ کا خدشہ مزید بڑھ گیا ہے۔
انسانی امداد میں رکاوٹیں
امانی ناعوق کے مطابق ریڈ کراس رسائی کی مشکلات کے باوجود امداد جاری رکھے ہوئے ہے۔ گذشتہ ہفتوں میں 400 سے زائد امدادی شیٹس اور 100 میڈیکل شیٹس تقسیم کی گئیں۔ اس کے علاوہ کچرے کی صفائی کے لیے عارضی ملازمتیں، عوامی باورچی خانے، اجتماعی تنور اور مواصی رفح میں فیلڈ ہسپتال بھی چلایا جا رہا ہے۔
انہوں نے کہا کہ موجودہ صورتحال عارضی اقدامات سے نہیں بلکہ بڑے پیمانے کی انسانی امداد، ملبہ ہٹانے، تعمیراتی سامان کی فراہمی اور بنیادی سہولیات کی دوبارہ بحالی سے ہی سنبھل سکتی ہے۔
سیز فائر کی خلاف ورزیاں اور صورتحال کو بگاڑنے کی دانستہ کوشش
حکومتی میڈیا دفتر نے انکشاف کیا ہے کہ قابض اسرائیل نے 10 اکتوبر کو وقف فائر کے نفاذ کے بعد سے اب تک درجنوں خروقات کیے ہیں۔
میڈیا دفتر کے ڈائریکٹر اسماعیل ثوابتہ نے بتایا کہ ان خروقات میں گھسائیاں، گولہ باری، فائرنگ اور ادویات، طبی سامان، خیموں اور موبائل گھروں کے داخلے پر پابندی شامل ہے۔
انہوں نے کہا کہ جنگ بندی پروٹوکول کے تحت 3 لاکھ خیمے اور موبائل گھر داخل ہونے تھے، جبکہ اس وقت 2 لاکھ 88 ہزار بے گھر خاندان سڑکوں اور کھلے میدانوں میں بے سہارے پڑے ہیں۔
ثوابتہ نے یہ بھی بتایا کہ قابض اسرائیل نے مصر کی طرف رفح گذرگاہ کے قریب 6 ہزار سے زیادہ امدادی ٹرکوں کے داخلے میں دانستہ رکاوٹ ڈال رکھی ہے اور انسانی بحران کو گھمبیر بنانے کی پوری ذمہ داری قابض ریاست پر عائد ہوتی ہے۔ انہوں نے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور بین الاقوامی ثالثوں سے فوری مداخلت کی اپیل کی۔
ان کے مطابق قابض اسرائیل کی نسل کش جنگ نے غزہ کی 90 فیصد شہری تنصیبات تباہ کر دیں جن کے ابتدائی نقصانات کا تخمینہ 70 ارب ڈالر ہے۔
ان تمام شواہد کی روشنی میں اقوام متحدہ، ریڈ کراس اور غزہ کی حکومتی رپورٹس اس خوفناک نتیجے پر متفق ہیں کہ اس سال غزہ ایک ایسی سردی کی طرف بڑھ رہا ہے جو شاید اس کی تاریخ کی سب سے سخت ترین ہو۔