(روز نامہ قدس ۔آنلائن خبر رساں ادارہ) غزہ پر غاصب صیہونی دشمن اسرائیل نے 17مارچ کی شب کو ایک مرتبہ پھر غزہ کے باسیوں پر شب خون مار دیا ہے۔کہا جا رہاہے کہ غاصب صیہونی ریاست اسرائیل نے ایک مرتبہ پھر اعلان جنگ کر دیا ہے۔ وھشیانہ حملوں میں چار سو کے لگ بھگ معصوم شہری شہید ہوئے ہیں۔حماس کے عہدیداروں سمیت جہاد اسلامی فلسطین کے اہم کمانڈر اور ترجمان ابوحمزہ بھی اسی حملہ میں اپنی اہلیہ اور گھر کے دیگر افراد کے ساتھ شہید ہو گئے ہیں۔
26جنوری سنہ 2025کو طے پانے والی جنگ بندی اور معاہدے کے مطابق یہ طے پا چکا تھا کہ غاصب صیہونی ریاست اسرائیل کسی قسم کا کوئی حملہ نہیں کرے گی لیکن راقم کی رائے اس وقت بھی یہی تھی کہ غاصب صیہونی حکومت اسرائیل کا ماضی ایسی ہزاروں خلاف ورزیوں کی سیاہ تاریخ سے بھرا پڑا ہے۔بہر حال غاصب صیہونی حکومت نے غزہ پر ایک اور جنگ مسلط کر دی ہے۔غزہ کے لوگوں کی نسل کشی کی جا رہی ہے۔اطلاعات کے مطابق ہمیشہ کی طرح معصوم انسانوں کے قتل عام کے لئے اسرائیل نے عالمی دہشت گرد حکومت امریکہ سے باقاعدہ مشاورت بھی کی ہے اور امریکہ کی اجازت کے بعد ہی غزہ پر جارحیت کا آغاز کیا ہے۔
سات اکتوبر سے پہلے کا فلسطین ہو یا سات اکتوبر کے بعد کا فلسطین ہو، ہمیشہ سے غاصب صیہونی حکومت نے امریکہ سے گرین سگنل لے کر ہی معصوم اور نہتے فلسطینیوں کا قتل عام کیا ہے۔
غزہ ایک مرتبہ پھر جنگ کے شعلو ں میں جل رہاہے اور دنیا بھر کے دو ارب مسلمانوں کی تعداد خاموش تماشائی بنی ہوئی ہے۔مغربی دنیا میں غزہ پر جارحیت کے خلاف لوگوں نے مظاہرے شروع کر دئیے ہیں لیکن یہ مسلم دنیا اور ان کے عوام ہیں کہ ابھی تک سستی اور کاہلی میں غرق ہیں۔ کسی کونے سے کوئی آواز نہیں آرہی ہے۔
غزہ پر جارحیت کے آغاز سے قبل ہی سترہ دن تک مسلسل غزہ میں امدادی سرگرمیوں کی ناکہ بندی کی گئی تھی۔غزہ میں بچے بھوک اور پیاس کی شدت سے بلک رہے تھے۔تازہ جارحیت میں شہید ہونے والوں میں زیادہ تر ایسے ہیں جو کئی دن سے بھوکے اور پیاسے تھے ۔جنہوںنے شاید سحری اور افطاری بھی نہیں کی تھی ۔
غز ہ میں ایک طرف بھوک اور پیاس کی شدت ہے دوسر ی طرف جنگ کے شعلے ہیں۔ دنیا کے دو ارب مسلمان اور ان کی حکومتیں خاموش ہیں۔ کسی کو غیرت نہیں آتی کہ وہ غزہ کے لوگوں کی مدد کریں۔ ’دو ارب نفوس کی حامل مسلم امہ غزہ آپ کی طرف سے تھمائی گئی امانت کو اپنے ناتواں کندھوں پر اٹھائے ہوئے ہے مگر بھوک اور ننگ پھر لوٹ آئے ہیں جو ہمارے بچوں کے معدوں کو کھا رہے ہیں‘۔یہ الفاظ ایک مقامی صحافی راجی الھمص کے ہیں جو انہوں نے اپنے’ایکس‘ اکاونٹ کے ذریعے عرب اور مسلمانان عالم سے غزہ کے مہینے کے دوران فوری مدد کرنے کی اپیل کے ذریعے کیے ہیں‘۔
الھمص نے نوجوانوں، سماجی کارکنوں، علماء، سیاسی رہنماؤں، شیوخ اور تمام بااثر شخصیات سے مطالبہ کیا کہ وہ اپنے اپنے حلقوں میں غزہ میں بڑھتے افلاس اور بھوک کے خلاف آواز بلند کریں اور غزہ پر مسلط کردہ محاصرہ توڑنے کے لیے، صہیونی ریاست کی جانب سےگذرگاہوں کی بندش اور انسانی امداد کے لیے ضروری انسانی امداد کے داخلے کی روک تھام کے لیے آواز بلند کریں۔
لیکن سوال یہ ہے کہ کیا ان کی اپیل غزہ کے گوں کی بھوک اور ان کے بہتے ہوئے خون سے زیادہ تاثیر رکھتی ہے ؟اس سوال کا جواب تو اب دو ارب مسلمانوں کو ہی دینا ہے۔بہر حال اب غزہ پر جنگ کے بادل ہیں اور ہم سب کی ذمہ داری ہے کہ غزہ کے لئے ہر طرح سے مدد کریں، فلسطین کے مسئلہ کو ہر سطح پر اٹھائیں او ر مظلوم فلسطینیوں کی مدد کریں ۔بصورت دیگر تاریخ اور آنے والی نسلیں ہمیں کبھی معاف نہیں کریں گی۔
تحریر: ڈاکٹر صابر ابو مریم
سیکرٹری جنرل فلسطین فائونڈیشن پاکستان