(روز نامہ قدس ۔آنلائن خبر رساں ادارہ) غزہ جاری نسل کشی کی جنگ کے خلاف غیر قانونی صیہونی ریاست اسرائیل کے اندر مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والے افراد کی جانب سے احتجاجی آوازیں بلند ہو رہی ہیں۔ جمعے کے روز اسرائیلی معاشرے کے تعلیمی، طبی اور فوجی شعبوں سے وابستہ افراد نے جنگ کے فوری خاتمے اور غزہ میں قید اسرائیلی شہریوں کی رہائی کے مطالبے پر مبنی عرضداشت پر دستخط کیے۔
تقریباً دو ہزار پروفیسرز اور اساتذہ، جو اسرائیل کی اعلیٰ تعلیمی جامعات سے وابستہ ہیں، نے ایک مشترکہ عرضداشت پر دستخط کیے جس میں کہا گیا ہے:> "اس وقت جاری جنگ دراصل سیاسی اور ذاتی مفادات کی تکمیل کے لیے لڑی جا رہی ہے، نہ کہ سیکیورٹی مقاصد کے لیے۔ ماضی کے تجربات سے ثابت ہو چکا ہے کہ اغوا شدہ افراد کی بحفاظت واپسی صرف معاہدے کے ذریعے ہی ممکن ہے، جب کہ فوجی دباؤ سے صرف ان کی ہلاکت اور فوجیوں کی زندگی کو خطرے میں ڈالا جاتا ہے۔”
فوجی ڈاکٹرز اور انٹیلی جنس اہلکار بھی میدان میں آ گئے
آج جمعہ کو تقریباً 100 فوجی ڈاکٹرز نے غیر قانونی صیہونی ریاست اسرائیل کی جنگی پالیسی کے خلاف احتجاجاً ایک عرضداشت پر دستخط کیے جس میں جنگ کے فوری خاتمے اور غزہ میں قید اسرائیلی شہریوں کی رہائی کا مطالبہ کیا گیا ہے۔ ان کے ساتھ اسرائیلی انٹیلی جنس یونٹ 8200 کے ارکان نے بھی اسی مطالبے پر مبنی ایک علیحدہ عرضداشت جمع کروائی۔
عرضداشت میں کہا گیا:> "بطور میڈیکل آفیسرز، ہم انسانی جانوں کے تقدس، فوجی حلف، اور اسرائیلی معاشرتی اقدار کی بنیاد پر اس جنگ کو جاری رکھنے اور قیدیوں کو نظرانداز کرنے کو مسترد کرتے ہیں۔ یہ رویہ ان تمام اصولوں کے منافی ہے جن پر ہماری تربیت ہوئی ہے۔”
عرضداشت کے منتظمین نے کہا کہ زیادہ تر دستخط کنندگان ریزرو سروس میں فعال ہیں اور مستقبل قریب میں مزید فوجی ڈاکٹرز بھی اس میں شامل ہوں گے۔
انہوں نے اسرائیلی ریڈیو کو بتایا:> "ہم چیف آف اسٹاف اور فوجی قیادت پر بھروسہ کرتے ہیں کہ وہ ہمیں صرف انہی مشنوں پر بھیجیں گے جن کی اخلاقی بنیاد ہو۔ ہم فوجی سروس سے انکار نہیں کر رہے، لیکن چاہتے ہیں کہ ہماری ریاست زمینی حقیقتوں کو تسلیم کرے۔”
انٹیلی جنس یونٹ 8200 کے ارکان کی واضح اپیل: جنگ سیاسی مفادات کی تکمیل کا ذریعہ بن چکی ہے
اسرائیلی چینل 13 کی رپورٹ کے مطابق، یونٹ 8200 کے موجودہ اور سابق ریزرو اہلکاروں نے ایک عرضداشت میں کہا:
> "ہم یہ واضح کرتے ہیں کہ موجودہ جنگ اب سلامتی کے مقاصد کو حاصل نہیں کر رہی، بلکہ سیاسی اور ذاتی مفادات کی تکمیل کا ذریعہ بن چکی ہے۔ اس جنگ سے نہ صرف اسرائیلی قیدی مارے جا رہے ہیں بلکہ فوجی بھی خطرے میں ہیں، اور اس کے باوجود حکومت کے پاس جنگ کے اہداف حاصل کرنے کی کوئی واضح حکمت عملی نہیں۔”
مزید کہا گیا:> "ہمیں تشویش ہے کہ ریزرو فوجیوں کی تھکن اور فوجی سروس سے انکار کے واقعات میں اضافہ ہو رہا ہے۔ موجودہ صورتحال نہ صرف جنگ زدہ افراد کے لیے خطرناک ہے بلکہ اسرائیلی معاشرے میں ایک خطرناک تقسیم بھی پیدا کر رہی ہے۔”
عرضداشت میں حکومتی ناکامی کو تنقید کا نشانہ
عرضداشت میں 7 اکتوبر کے واقعے کی ذمہ داری قبول نہ کرنے پر اسرائیلی حکومت کو سخت تنقید کا نشانہ بنایا گیا۔ کہا گیا:
> "حکومت نے نہ تو اس تباہی کی ذمہ داری لی ہے اور نہ ہی اس کے پاس بحران کا کوئی مؤثر حل موجود ہے۔ فوجی دباؤ کے ذریعے قیدیوں کی رہائی ممکن نہیں، بلکہ ان کی ہلاکت اور ہمارے فوجیوں کی جان کو خطرہ لاحق ہے۔”
آخر میں واضح طور پر کہا گیا:> "ہم اسرائیلی شہریوں سے اپیل کرتے ہیں کہ وہ ہر ممکن ذریعہ استعمال کرتے ہوئے قیدیوں کی فوری رہائی اور جنگ کے خاتمے کا مطالبہ کریں۔ ہر گزرتا دن ان کی زندگیوں کو خطرے میں ڈال رہا ہے۔ مزید تاخیر اسرائیلی معاشرے کے لیے ایک شرمندگی ہے۔”