غزہ ۔ روزنامہ قدس ـ آنلائن خبر رساں ادارہ
اسلامی جہاد کے نائب سیکرٹری جنرل محمد ہندی نے اس امریکی مسودہ قرارداد کے سیاسی اور سکیورٹی خطرات سے خبردار کیا ہے جو غزہ کی پٹی میں بین الاقوامی فورس تعینات کرنے سے متعلق ہے اور جسے پیر کے روز اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں پیش کیا جانا ہے۔
محمد ہندی نے الجزیرہ مباشر سے گفتگو میں کہا کہ ان کی تحریک موجودہ شکل میں اس مسودے کو قبول نہیں کرتی کیونکہ یہ غزہ کی صورتحال کو ’’خطرناک انداز‘‘ میں نئی شکل دے سکتا ہے۔
انہوں نے وضاحت کی کہ امریکی مسودہ بعض عرب اور اسلامی ممالک کو مطمئن کرنے کے لیے ’’مبہم اور وسیع‘‘ زبان استعمال کرتا ہے جس میں فلسطینی عوام کے کسی واضح حق کا ذکر نہیں۔
محمد ہندی کے مطابق مسودہ قرارداد کی منظوری ’’بڑی خطرات‘‘ کا باعث بن سکتی ہے اور خطے میں استحکام کی ضمانت نہیں دیتی۔ اس کے نتیجے میں امریکہ کو غزہ کے مستقبل کے تعین میں براہ راست کردار مل سکتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ’’ہم کسی بھی ایسے انتظام کو قبول نہیں کریں گے جس کے تحت غزہ کی پٹی کو امریکی نگرانی میں چلایا جائے‘‘۔
اسلامی جہاد کے نائب سیکرٹری جنرل نے کہا کہ مجوزہ مسودہ ’’نئے قواعد‘‘ قائم کر سکتا ہے جو ممکنہ طور پر غزہ کی تقسیم یا اس کے قومی ماحول سے علیحدگی کی راہ ہموار کریں گے۔ انہوں نے کہا کہ امریکی گفتگو میں فلسطینی ریاست کے حوالے سے بات ’’مبہم‘‘ ہے اور یہ بھی واضح نہیں کیا گیا کہ غزہ اور مغربی کنارے کے درمیان ربط کیسے قائم ہو گا؟”۔
انہوں نے واضح کیا کہ اسلامی جہاد تحریک کسی ایسی بین الاقوامی فورس کی آمد کو قبول نہیں کرتی جو غزہ کے اندر قابض انتظامیہ کی جگہ لے لے۔ ان کے مطابق ایسی فورس جس کے اختیارات اور ذمہ داریوں کی واضح تعریف نہ ہو، وہ ’’نئے انتظامی ڈھانچے‘‘ کا کردار اختیار کر سکتی ہے۔
انہوں نے نشاندہی کی کہ دنیا کے بیشتر ممالک نے واضح ذمہ داریوں اور تشکیل کے طریقہ کار کی عدم موجودگی کے باعث اس فورس میں شمولیت کی عدم دلچسپی ظاہر کی ہے۔
محمد ہندی نے کہا کہ فلسطینی عوام پر ’’اقوام متحدہ کی آڑ‘‘ میں کوئی امریکی یا اسرائیلی تصور مسلط کیے جانے کو قبول نہیں کرے گی۔ انہوں نے بتایا کہ اسلامی جہاد نے اپنے تحفظات اور نکات پر مشتمل تفصیلی پیغامات ثالثوں اور سلامتی کونسل کے رکن ممالک کو ارسال کر دیے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ امریکی مسودے کے ترمیم شدہ متن میں اب بھی ’’ابہام‘‘ موجود ہے اور یہ فلسطینی عوام کے بنیادی معاملات کو نظرانداز کرتا ہے۔ ان کے مطابق اس کی منظوری ایسے مرحلے کی بنیاد رکھ سکتی ہے جس میں ’’سکیورٹی اور انتظامی بندوبست‘‘ فلسطینی عوام کی مرضی سے ہٹ کر مسلط کیے جائیں۔
سلامتی کونسل کل اس مسودے پر ووٹنگ کرے گی جبکہ عالمی سطح پر اس بات پر گہرا اختلاف پایا جاتا ہے کہ آیا تجویز کردہ بین الاقوامی فورس جنگ بندی اور تعمیر نو میں معاون ہو گی یا غزہ میں ایک نئے سیاسی تنازع کا آغاز کرے گی۔