(روز نامہ قدس ۔آنلائن خبر رساں ادارہ) عبرانی ذرائع ابلاغ کے مطابق، غیر قانونی صیہونی ریاست اسرائیل کی فوج اور سیکیورٹی ادارے اس وقت غزہ کے خلاف جس حکمتِ عملی کو سب سے مؤثر اور قابلِ عمل سمجھتے ہیں، وہ موجودہ فوجی آپریشن کو مزید شدت کے ساتھ جاری رکھنا ہے۔ اس حکمتِ عملی کا بنیادی مقصد حماس اور اسلامی جہاد جیسی مزاحمتی تنظیموں کو مکمل طور پر کمزور کرنا اور انہیں سیاسی و عسکری میدان میں پسپا کرنا ہے۔
اس منصوبے کے تحت حملوں کی رفتار اور شدت میں مسلسل اضافہ کیا جا رہا ہے، تاکہ غزہ میں خوف اور بے یقینی کی فضا قائم کی جائے۔ روزانہ کی بنیاد پر فضائی اور زمینی حملوں میں اضافہ کیا جا رہا ہے، جن کا نشانہ نہ صرف عسکری اہداف بلکہ رہائشی علاقوں، اسپتالوں، اسکولوں اور پناہ گزین کیمپوں کو بھی بنایا جا رہا ہے۔
انسانی امداد کی محدود رسائی:
ایک اہم اور خطرناک پہلو امدادی سامان کی بندش ہے۔ رپورٹ کے مطابق، غیر قانونی صیہونی ریاست کی پالیسی یہ ہے کہ غزہ میں صرف وہی مقدار میں انسانی امداد داخل ہونے دی جائے جو مکمل قحط اور وبائی بیماریوں کو روکنے کے لیے ضروری ہو، لیکن عام شہریوں کی روزمرہ کی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے ناکافی ہو۔ اس حکمتِ عملی کے تحت خوراک، ادویات، ایندھن، اور پانی کی شدید قلت پیدا کی جا رہی ہے، جسے ایک نفسیاتی ہتھیار کے طور پر استعمال کیا جا رہا ہے تاکہ عوامی حمایت مزاحمتی گروہوں سے کم ہو جائے۔
بین الاقوامی شراکت داری اور "یومِ بعد” کا منصوبہ:
عبرانی اخبار کے مطابق، غیر قانونی صیہونی ریاست کا یہ منصوبہ صرف عسکری کارروائی تک محدود نہیں بلکہ اس کا ایک طویل المدتی سیاسی پہلو بھی ہے۔ یہ منصوبہ امریکی سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی انتظامیہ کی جانب سے پیش کردہ "ڈیل آف دی سنچری” سے جڑا ہوا ہے، اور بعض عرب ممالک کی رضامندی بھی حاصل کی گئی ہے۔ اس منصوبے کے تحت جنگ کے بعد غزہ میں ایک نیا سیاسی و انتظامی نظام قائم کرنے کی تیاری کی جا رہی ہے، جو فلسطینی مزاحمتی جماعتوں کے بغیر ہو۔
یہ حکمتِ عملی نہ صرف انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزی ہے بلکہ یہ عالمی قوانین کے بھی برخلاف ہے، جو شہری آبادی کو جنگ کا نشانہ بنانے سے روکتے ہیں۔ امداد کی بندش اور اجتماعی سزا کی یہ پالیسی انسانی المیے کو جنم دے رہی ہے، جس پر عالمی اداروں اور انسانی حقوق کی تنظیموں کو فوری توجہ دینے کی ضرورت ہے۔