روزنامہ قدس ـ آنلائن خبر رساں ادارہ
جمعرات کو قابض صہیونی آبادکاروں نے شمالی مغربی سلفیت کے شہر دیر استیا کے مشرق میں واقع ایک مسجد کے حصوں کو نذر آتش کر دیا اور اس کی دیواروں پر توہین آمیز نسل پرستانہ نعرے لکھ ڈالے۔ اس واقعے پر تبصرہ کرتے ہوئے معروف صحافی اور کالم نگار وائل قندیل کہتے ہیں کہ چند برس پہلے تک ایسا واقعہ پورے فلسطین کو جھنجھوڑ دیتا تھا، عوامی غصہ بھڑک اٹھتا تھا اور یہ غم و غصہ مزاحمت کی مختلف صورتوں میں سامنے آتا تھا۔ عرب ممالک کے شہروں میں بھی احتجاجی جلوس نکلتے تھے جو قابض اسرائیل کے خلاف بھرپور آواز اٹھاتے تھے۔
قندیل اپنی تحریر میں لکھتے ہیں کہ افسوس آج ایسی خبریں معمول بن چکی ہیں، نہ رام اللہ میں بیٹھنے والی اس نام نہاد فلسطینی اتھارٹی کو جھنجھوڑتی ہیں نہ ان میں بسنے والے فلسطینیوں کے جان و مال کا تحفظ یقینی بنا پاتی ہیں۔ صہیونی آبادکاروں کی یہ منظم یلغار مغربی کنارے کی تاریخ میں پہلے کبھی اس شدت سے نہیں دیکھی گئی، جو سنہ 1948 اور اس سے پہلے کے قتل و غارت کی یاد تازہ کرتی ہے۔
وہ نشاندہی کرتے ہیں کہ جب بھی عرب اور اسرائیلی فریقین کے مابین کسی نام نہاد امن کانفرنس کا انعقاد ہوتا ہے آبادکاروں کی سفاک حملوں میں اضافہ دیکھنے میں آتا ہے۔ شرم الشیخ میں ٹرمپ کی کانفرنس کے بعد بھی یہی ہوا۔ اسی طرح سنہ 2023 کی ستائیس فروری کو العقبة کانفرنس کے بعد امریکہ، اردن، مصر اور فلسطینی اتھارٹی کے ساتھ قابض اسرائیل کے اجلاس کے فوراً بعد بھی مغربی کنارے پر حملوں کا سلسلہ تیز ہو گیا جیسا کہ "العربی الجدید” نے لکھا۔
تصاویر میں واضح ہے کہ جمعہ کی نماز کے لئے نمازی بڑی تعداد میں سلفیت کے علاقے دیر استیا اور کفل حارس کے درمیان واقع مسجد الحاجة حمیدہ پہنچے، جسے ایک روز قبل آبادکاروں نے آگ لگا کر خاکستر کرنے کی کوشش کی تھی۔
منظم آبادکاری کا دہشت گردی پر مبنی طرز عمل
قندیل کا کہنا ہے کہ اس منظم دہشت گردی کا مقصد واضح ہے فلسطین کے اصل باشندوں کو ان کی سرزمین سے بے دخل کرنا، ان کے گھروں پر قبضہ کرنا اور طاقت کے زور پر حقیقت کو بدلنے کی کوشش کرنا۔ یہ سب کچھ وہی چہرہ دکھاتا ہے جو بیسویں صدی کے آغاز میں بیرونِ ملک سے آئے صہیونی گروہوں نے دکھایا تھا، جو دھونس، دھمکی اور قتل کے ذریعے زمینوں پر قبضہ جمایا کرتے تھے۔
اسی تناظر میں فلسطینی قومی جدوجہد کی اہم شخصیت ڈاکٹر مصطفی البرغوثی وائل قندیل کے موقف کی تائیدکرتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ صہیونی آبادکاروں کی یہ دہشت گرد تنظیمیں ہاگانا جیسی گروہوں کی براہِ راست وارث ہیں جنہوں نے سنہ 1948 میں نكبہ کے جرائم کا ارتکاب کیا۔ آج بھی انہی کے نقش قدم پر چلتے ہوئے یہ آبادکار وہی منصوبہ نافذ کر رہے ہیں جو اُس وقت نافذ کیا گیا تھا۔
مسجد الحاجہ حمیدہ کو نذر آتش کرنے کی فوٹیج سامنے آنے کے بعد بھی یہی طرزِعمل نظر آیا جہاں دیواروں پر نسل پرستانہ عبارتیں درج تھیں۔
ڈاکٹر البرغوثی بتاتے ہیں کہ گذشتہ دنوں میں ان حملوں میں خطرناک حد تک اضافہ ہوا ہے اور ان اقدامات کے نتیجے میں مغربی کنارے کے ساٹھ سے زائد رہائشی مقامات خالی کرائے جا چکے ہیں، یعنی یہ داخلی سطح پر جاری ایک منظم نسلی تطہیر ہے۔
مساجد کو آگ لگانا… مسلمانوں کے جذبات پر کھلا حملہ
ادھر اسلامی تعاون تنظیم کی جنرل سیکرٹریٹ نے سلفیت میں مسجد کو آگ لگانے کی مذموم کارروائی کی شدید ترین الفاظ میں مذمت کی۔ تنظیم نے اپنے بیان میں کہا کہ یہ اقدام دنیا بھر کے مسلمانوں کے جذبات پر کھلا وار اور عبادت گاہوں کی حرمت کی سنگین خلاف ورزی ہے جو بین الاقوامی قوانین اور جنیوا کنونشنز کی صریح خلاف ورزی ہے۔
اس نے عالمی برادری سے مطالبہ کیا کہ وہ اس سنگین دہشت گردی میں ملوث تمام عناصر کے خلاف قانونی کارروائی کرے اور قابض اسرائیل کو حاصل سزا سے بچ نکلنے کی روش کا خاتمہ کرے۔
اقوام متحدہ کی مذمت: مذہبی مقامات کی بےحرمتی نا قابل قبول
اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوتیریش نے بھی دير استيا میں مسجد پر آبادکاروں کے حملے کی شدید مذمت کی ہے۔ ترجمان اسٹیفن دوجاریک نے اپنے بیان میں کہا کہ مذہبی مقامات کی بے حرمتی اور تشدد کے ایسے واقعات ناقابل قبول ہیں اور عبادت گاہوں کا احترام اور ان کی حفاظت یقینی بنانا ناگزیر ہے۔
اردن کی وزارتِ خارجہ نے بھی مسجد الحاجة حمیدہ کو جلانے کی شدید مذمت کرتے ہوئے قابض اسرائیل کو ان حملوں کا براہِ راست ذمہ دار قرار دیا۔
ضبط شدہ حقیقت کو مسلط کرنے کی کوشش
حماس نے بھی مسجد کو نذر آتش کرنے کے واقعے کو مقدسات پر حملے اور مسلمانوں کے جذبات کی سنگین توہین قرار دیا۔ حماس نے اپنے بیان میں کہا کہ یہ کارروائیاں قابض اسرائیلی حکومت کی سرپرستی میں منظم انداز میں کی جا رہی ہیں جن کا مقصد مغربی کنارے میں نئے حقائق مسلط کرنا اور اس کی تاریخی شناخت کو مسخ کرنا ہے۔
بیان میں کہا گیا کہ ان بڑھتے ہوئے حملوں کے باعث عالمی برادری کو فوری اقدامات کرنے کی ضرورت ہے تاکہ اس کٹہرے میں لایا جا سکے جو مقدسات کی حرمت، بین الاقوامی قوانین اور انسانی اصولوں کو پامال کر رہا ہے۔