(روز نامہ قدس ۔آنلائن خبر رساں ادارہ )اقوام متحدہ کے انسانی حقوق برائے فلسطینی اراضی کےمتعلق معاملات پر نظر رکھنے والے مرکز اوچا کی طرف اسے جاری کردہ ایک رپورٹ میں یہ انکشا ف کیا ہے کہ قابض صہیونی ریاست نے فرعونیت کا مظاہرہ کرتے ہوئے ایک گزشتہ دو ہفتے کے دوران فلسطینیوں کی ستائیس املاک کو یا تو قبضہ میں لے لیا یا ڈھا دیا۔
واضح رہے کہ یہ تمام املاک سنہ 1993ء میں طے پائے اوسلو معاہدے کے تحت غرب اردن کی تقسیم کے بعد بننے والے سیکٹر’سی’ اور بیت المقدس میں آتی ہیں۔ تاہم تمام موجود حقائق کو مسترد کرتے ہوئےصہیونی حکام کی طرف سے روایتی انداز میں فلسطینیوں کی املاک کے غیرقانونی ہونے کا دعویٰ کیا۔
تفصیلات کے مطابق’اوچا’ کی طرف سے ‘شہری تحفظ’ کے عنوان سے 18 جون سے یکم جولائی کے درمیان کے واقعات پرمبنی رپورٹ جاری کی گئی۔ رپورٹ کے مطابق دو ہفتوں کے دوران اسرائیلی ریاست کے نسل پرستانہ انتقامی حربوں کے باعث فلسطینی 27 املاک سے محروم ہوگئے۔ مکانات مسماری یا غاصبانہ قبضے سے 35 بچوں سے 52 فلسطینی بے گھر ہوگئے جب کہ 5074 فلسطینی بالواسطہ طور پرمتاثر ہوئے ہیں۔
رپورٹ میں کہا گیا ہےکہ غرب اردن کے شمالی شہر نابلس میں قصرۃ اور مجدل بنی فاضل میں فلسطینیوں کی تین املاک امدادی اداروں کے تعاون سے تعمیر کی گئی تھیں۔ 24 املاک ‘سیکٹر سی’ میں موجود فلسطینی بستیوں میں مسمار یا قبضے میں لی گئیں۔ یہ املاک بیت لحم میں زعتر الکریشان الرعوی کے مقامات پر واقع ہیں۔
رپورٹ کے مطابق جون میں اسرائیلی فوج نے مجموعی طورپر فلسطینیوںکی 27 املاک اور رہائشی مکانات مسمار کیے جس کے نتیجے میں 32 بچوں سمیت 46 فلسطینی متاثر ہوئے۔
رپورٹ میں اسرائیلی افواج کی درند گی کا بھی پردہ چاک کرتے ہوئے بتایا گیا ہے کہ دو ہفتوں کےدوران اسرائیلی فوج نے غرب اردن، غزہ اور بیت المقدس میں فلسطینیوں کے خلاف ریاستی دہشت گردی اور قتل ق غارت گری کا سلسلہ جاری رکھا جس کے نتیجے میں 494 فلسطینی زخمی ہوگئے۔ ان میں زیادہ فلسطینی غزہ کی پٹی میں 30مارچ 2018ء سے جاری حق واپسی تحریک پراسرائیلی فوج کی فائرنگ سے زخمی ہوئے