(روزنامہ قدس ۔آن لائن خبر رساں ادارہ) سعودی عرب کے ٹیلی ویژن نیٹ ورک ایم بی سی پر کویتی فنکاروں کی تیار کردہ ایک متنازع ڈرامہ سیریز "ام ھارون "جو یکم رمضان سے نشر کی جارہی ہے اس اس ٹی وی سیریز کے حواے سے پہلے بھی خبروں پر ردعمل سامنے آچکا ہے مگر اس کی نشریات رکوانے کے مطالبات نظر انداز کیئے جانے کے بعد اس سوشل میڈ پر اس کے خلاف آن لائن انتفاضہ شروع ہوچکی ہے۔
سعودی عرب کےملکیتی ‘ایم بی سی’ چینل پر چلنے والی ٹی وی سیریز ‘ام ھارون’ کا مقصد دراصل خلیجی ممالک بالخصوص سعودی عرب اور اسرائیل کے درمیان تعلقات کو معمول پرلانے کی کوشش کی گئی ہے جس میں صیہونی ریاست کے ساتھ ہمدری اور فلسطینیوں کی اسرائیل کے ساتھ جاری مزاحمت کی نفی دیکھائی گئی ہے۔
اس ڈرامہ سیریز کاآغاز ہی عبرانی کے الفاظ میں ہوتا ہے۔ اس میں ایک عرب یہودی لڑکی کا قصہ بیان کیا گیا ہے جس کے خاندان کے مسلمانوں اور عربوں کے ساتھ گہرے مراسم تھے۔
ماہرین اور فلسطینیوں کا کہنا ہے کہ ‘ام ھارون’ میں کویت میں یہودیوں کے وجود کی ترویج کی گئی ہے۔ اس میں کئی تاریخی حقائق کو دانستہ طورپر مسخ کیا گیا اور ڈارمے کی آڑ میں جمہور عرب عوام بالخصوص خلیجی عوام کےکے ذہنوں اور افکار پر اثرانداز ہونے کی کوشش کی گئی ہے۔
ڈارمہ سیریز’ام ھارون’ ماہ صیام میں سعودی ٹی وی چینل پر نشر کیا جا رہا ہے۔ اس ڈرامے میں کویت میں سنہ 1940ء کے عشرے میں کویت میں عیسائیوں، یہودیوں اور مسلمانوں کے درمیان باہمی تعلقات اور میل جول پرروشنی ڈالی گئی ہے۔ اس میں یہودیوں اور مسلمانوں کےدرمیان تعلقات کی بات کی گئی ہے مگر اسی عرصے میں فلسطینی قوم کے خلاف یہودیوں کی دہشت گردی، نسل پرستی، ظلم، نا انصافی، النکبہ جیسی کیفیات اپنے عروج پرہونے کے باوجود کوئی تذکرہ نہیں کیا گیا۔
دوسرے الفاظ میں اس فلم میں فلسطینی سرزمین پر صرف یہودیوں کے قومی ملک اسرائیل کی لابنگ کی گئی ہے اور فلسطینیوں کے حوالےسے کوئی بات نہیں کی گئی۔ گویا فلسطینی اپنا کوئی وجود ہی نہیں رکھتے۔