مقبوضہ بیت المقدس (روز نامہ قدس ۔آن لائن خبر رساں ادارہ) اسرائیلی میڈیا نے صیہونی حکومت کے بارے میں سعودی عرب کے ولی عہد بن سلمان کی جانب سے اپنے مشیر کو دی جانے والی ہنگامہ خیز ہدایات کا انکشاف کیا ہے۔
روز نامہ قدس کو موصول ہونے والی اطلاعات کے مطابق مقبوضہ بیت المقدس سے شائع ہونے والے اخبار معاریب نے رپورٹ میں بتایا ہے کہ بن سلمان نے اپنے مشیر خاص سعودی القحطانی کو سعودی عوام کے درمیان اسرائیل کی ساکھ بہتر بنانے کا خصوصی ٹاسک دیا تھا۔
اس سے پہلے امریکی اخبار وال اسٹریٹ جرنل نے بھی ایک رپورٹ میں بتایا کہ سعود القحطانی بن سلمان کے مشیر خاص کے عہدے پر فائز تھا لیکن اسے شاہی دربار میں وزیر کا درجہ حاصل تھا اور اس نے سعودی میڈیا کو حکم دیا تھا کہ سعودی سلطنت میں اسرائیل کی ساکھ کو بہتر بنانے کے لیے رائے عامہ کو ہموار کریں۔
اس رپورٹ کے مطابق سعودی ذرائع ابلاغ میں اسرائیل کے ساتھ تعلقات معمول پر لانے کے بارے میں مقالات کی اشاعت اور اعلی عہدیداروں سے وابستہ ویب سائٹس پر صہیونی حکام کے انٹرویوز بھی سعودی القحطانی کے حکم پر نشر کیے جاتے رہے ہیں۔
اسرائیل کے تجزیہ نگار جیکی حوکی نے بھی روزنامہ معاریب میں شائع ہونے والے ایک مضمون میں لکھا ہے کہ سعودی حکمرانوں سے قربت رکھنے والے صحافیوں اور مصنفین میں یہ رجحان ولی عہد بن سلمان کے احکامات کے نتیجے میں پیدا ہوا ہے جس کا مقصد سعودی عرب اور اسرائیل کے درمیان تعلقات کی نوعیت کو تبدیل کرنا اور اسرائیل کو کھلے بندوں تسلیم کرنے کے لیے رائے عامہ کو ہموار کرنا ہے۔
پچھلے چند برسوں کے دوران خطے کے بعض عرب ملکوں خاص طور سے سعودی عرب، متحدہ عرب امارات اور بحرین جیسے ممالک کی جانب سے اسرائیل کے ساتھ تعلقات معمول پر لانے کی کوششیں تیز ہو گئی ہیں۔
مذکورہ عرب ملکوں کی جانب سے اسرائیل کے ساتھ تعلقات معمول پر لانے کی کوششیں ایسے وقت میں انجام پا رہی ہیں جب سرزمین فلسطین میں تحریک انتفاضہ کے شعلے بھڑکنا شروع ہو گئے ہیں اور تیس مارچ سے جاری فلسطینیوں کے حق واپسی مارچ کا سلسلہ انتالیسویں ہفتے میں داخل ہو گیا ہے۔
تیس مارچ دو ہزار اٹھارہ سے جاری فلسطینیوں کے گرینڈ واپسی مارچ پر صیہونی فوجیوں کی فائرنگ کے نتیجے میں اب تک ڈھائی سو سے زائد فلسطینی شہید اور چھبیس ہزار سے زائد دیگر زخمی ہو چکے ہیں۔
اسرائیل نے سن دو ہزار چھے سے غزہ کا محاصرہ کر رکھا ہے اور وہ وہاں بنیادی ضرورت کی اشیا پہنچنے نہیں دے رہا ہے جس کے نتیجے میں غزہ کے فلسطینیوں کو غذائی اشیا اور دواؤں کی شدید قلت کا سامنا ہے۔