روح کو چیر دینے والا منظر اس سے زیادہ دردناک کوئی نہیں کہ ایک ماں جلے ہوئے جسموں کے ڈھیر میں اپنے بیٹے کے چہرے کی جھلک تلاش کر رہی ہو۔ غزہ میں یہ منظر نسل کشی سے بچ جانے والوں کے لیے سب سے اذیت ناک حقیقت بن چکا ہے۔ ہر ماں اور ہر زندہ بچ جانے والا اپنے لخت جگر کی تلاش میں ان لاشوں کے درمیان پھر رہا ہے جنہیں قابض اسرائیل نے انتہائی سفاکی اور سادیّت کے ساتھ مسخ کیا، یا وہ ملبے کے ڈھیر کے نیچے دبے ہیں جو پورے غزہ میں پھیلا ہوا ہے۔
غزہ کے ہر کوچے، ہر گلی، ہر ویرانے میں اب المیہ صرف ایک عدد یا خبر نہیں رہا، بلکہ ایک صبر آزما جستجو بن چکا ہے۔کسی نشانی کی، کسی نام کی، کسی ایسے وداع کی جو ادھورا رہ گیا۔
گذشتہ کئی ہفتوں سے ہزاروں فلسطینی خاندانوں کے دلوں پر لگا زخم دوبارہ ہرا ہو گیا ہے۔ قابض اسرائیل نے جنگ بندی اور اسیران و شہداء کے جسدوں کے تبادلے کے معاہدے کے تحت کچھ لاشیں واپس کی ہیں، جبکہ شہری دفاع کی ٹیمیں مسلسل تباہ شدہ علاقوں سے شہداء کی لاشیں نکال رہی ہیں۔ لیکن اکثر لاشوں کے چہرے پہچان سے باہر ہیں، کیونکہ قابض دشمن نے ان کی تمام پہچان جلا ڈالی۔صرف راکھ باقی رہ گئی ہے جو اس وسیع نسل کشی کی گواہی دے رہی ہے۔
مائیں تصویروں کے سامنے بیٹھی ہیں، جلے ہوئے چہروں میں اپنے بیٹوں کی جھلک ڈھونڈ رہی ہیں۔ کچھ مائیں اپنے بچوں کو جسم پر موجود کسی نشانی سے پہچان لیتی ہیں جو ان کے بچپن کی یاد دلاتی ہے اور ان کے دلوں میں آگ لگا دیتی ہے۔ بعض ایک ادھ جلی چادر یا کپڑے کے ٹکڑے سے اپنے بیٹے کو پہچان لیتی ہیں۔ یہ لمحہ صرف غم کا نہیں بلکہ انسانی وجود کے انہدام کا ہےجب انسان سے یہ حق بھی چھین لیا جائے کہ اسے اپنی پہچان کے ساتھ دفن کیا جا سکے، قابض اسرائیل کی درندگی کے باعث۔
یہ مناظر قابض کی تاریخ میں کوئی نیا واقعہ نہیں بلکہ اس کے وجود کی اصل تصویر ہیں۔ غزہ میں پچھلے دو برسوں سے یہی ہو رہا ہے۔ایک ایسی جنگ جو فلسطینی انسان کو صرف جسمانی طور پر نہیں بلکہ یادداشت، شناخت اور معنی کے اعتبار سے بھی مٹانے کی کوشش ہے۔
قابض اسرائیل صرف زندوں کو قتل نہیں کرتا، وہ زندہ بچ جانے والوں کے دلوں میں امید کا خون کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ وہ جانتا ہے کہ جنگ صرف بمباری سے ختم نہیں ہوتی بلکہ تب ختم ہوتی ہے جب مائیں رونا چھوڑ دیں، جب آخری چراغ بجھ جائے جس کی روشنی میں وہ اپنے پیاروں کو تلاش کرتی ہیں۔
چند روز قبل ایک دوست نے بتایا کہ اس کی بہن اپنے لاپتہ بیٹے کی تلاش میں العودہ ہسپتال میں جلی ہوئی لاشوں کے درمیان پھر رہی تھی۔ وہ منظر کسی دل کو توڑ دینے کے لیے کافی تھا۔
غزہ میں ہر شخص دوسرے کا دکھ محسوس کرتا ہے۔ ایک غمزدہ دوسرے غمزدہ کی کہانی سناتا ہے۔ یہاں سب کا درد ایک ہےکہ اب ہم موت سے نہیں ڈرتے، ہمیں اس زندگی سے ڈر لگتا ہے جو روز کسی پیارے کی خبر لاتی ہے۔
قابض اسرائیل کی یہ درندگی کسی روایتی فوجی فتح کے لیے نہیں بلکہ فلسطینیوں کی انسانیت کو توڑنے کے لیے ہے۔ وہ جان بوجھ کر لاشیں مسخ حالت میں واپس کرتا ہے تاکہ موت کو بھی اذیت بنا دے۔ یہ سوچے سمجھے انداز میں کی جانے والی سفاکیت اور درندگی ہےجس کا مقصد غم کو دائمی عذاب میں بدل دینا ہے۔
لیکن یہ صہیونی ریاست نہیں جانتی کہ درد خواہ کتنا ہی گہرا کیوں نہ ہو، وہ یادوں کی چنگاری کو بجھا نہیں سکتا۔ ہر لاپتہ فرد ایک گواہی بن جاتا ہے، ہر ادھورا وداع انصاف کے وعدے میں ڈھل جاتا ہے۔
درحقیقت یہ نسل کشی کوئی حادثہ نہیں بلکہ ایک صدی پر محیط نوآبادیاتی منصوبے کی تسلسل ہے۔ جب یہ جھوٹ بولا گیا کہ "بے آب و گیاہ زمین ایک قوم کے لیے”، تب ہی سے صہیونی منصوبہ فلسطینی کو مٹانے، اس کے نام، تاریخ اور یادداشت کو ختم کرنے کی کوشش ہے۔
آج یہی منصوبہ غزہ میں اپنی بھیانک ترین شکل میں ظاہر ہو رہا ہے۔ یہاں حملہ کسی فرد پر نہیں بلکہ پورے خاندانی وجود پر ہے۔ماں، باپ، بچے، گھر، تصویر، حتیٰ کہ قبر تک محفوظ نہیں۔
یہ جنگ صرف مزاحمت کے خلاف نہیں بلکہ فلسطینی وجود کے تسلسل کے خلاف ہے۔اس بچے کے خلاف جو سکول جا رہا ہے، اس بوڑھے کے خلاف جو زیتون کے درخت لگا رہا ہے، اس ماں کے خلاف جو اپنے ہاتھوں سے کڑھائی دار لباس بناتی ہے تاکہ بتا سکے کہ یہ زمین اپنی شناخت رکھتی ہے۔
مگر اس سب کے باوجود فلسطینی عوام ملبے میں دفن ہونے کے بعد بھی زندگی سے وابستہ ہیں۔ ماؤں کی آنکھوں میں آنسوؤں کے باوجود عزم کی چمک باقی ہے، بچوں کی زبان پر ایک نیا خواب ہے۔ہم زندہ رہیں گے تاکہ بھول نہ جائیں بلکہ اس راہ کو جاری رکھیں جس سے ہماری تاریخ زندہ رہتی ہے۔
ہر گمنام لاش ایک جرم کی گواہی ہے، ہر لاپتہ فرد انسانیت کے خاموش ضمیر پر سوال ہے۔ مگر تاریخ بھولتی نہیں، یادداشت مرتی نہیں۔ جنہوں نے شہداء کے چہروں کو جلایا، ایک دن وہ جان لیں گے کہ جو کبھی نہیں جلتا وہ سچ ہے۔
قابض اسرائیل نے زمین چرا لی، زندگی چھین لی، ورثہ لوٹ لیا، مگر وہ عزم اور ارادے کو چرا نہیں سکا۔ غزہ میں ملبے کے نیچے بھی زندگی جنم لیتی ہے، دھوئیں کی مہک میں عہد جنم لیتا ہےکہ ہم زندہ رہیں گے، لکھیں گے اور اپنے شہداء کے ناموں کو ہمیشہ زندہ رکھیں گے تاکہ وہ محض اعداد نہیں بلکہ زندگی کے استعارے بنے رہیں۔