(روز نامہ قدس ۔آنلائن خبر رساں ادارہ) جیسا کہ توقع کی جا رہی تھی، اسرائیلی وزیر اعظم بنجمن نیتن یاہو کے دورے کے دوران، امریکی صدر نے سب کو حیران کر دیا۔ ان کے غیر ذمہ دارانہ، بے لگام اور غیر منطقی مؤقف نے ایک بار پھر ان کی پہلی مدت میں اپنائی گئی "پاگل پن کی حکمت عملی” کی یاد دلا دی۔ لیکن اس بار، بہت سے لوگوں کو یقین ہو گیا ہے کہ وہ محض اس حکمت عملی کا ڈھونگ نہیں رچا رہے، بلکہ یہ ان کی اصل حقیقت کا ایک بنیادی حصہ ہے۔
اس کی سب سے نمایاں علامت، یا کم از کم جس چیز نے اس یقین کو مزید مضبوط کیا، وہ ان کے غزہ کے بارے میں دیے گئے غیر ذمہ دارانہ بیانات تھے، جن میں انہوں نے غزہ کے عوام کو پڑوسی ممالک میں منتقل کرنے، اس زمین پر قبضہ کرنے اور بحیرہ روم کے مشرقی ساحل پر ایک بڑے سیاحتی مرکز کی تعمیر کا ارادہ ظاہر کیا، جو فرانسیسی رویرا جیسا ہو۔
یہ پیش رفت یہاں تک کہ نسل کشی کے سب سے زیادہ حامیوں کے لیے بھی چونکا دینے والی تھی— نہ صرف اس لیے کہ یہ بین الاقوامی قوانین، اقوام متحدہ کی قراردادوں کی خلاف ورزی ہے اور عالمی عدالتوں کے مطابق انسانیت کے خلاف جرم کے زمرے میں آتی ہے، بلکہ اس لیے بھی کہ اس قسم کے عزائم کو عملی جامہ پہنانے کے لیے جو وسائل درکار ہیں، وہ موجود نہیں۔ یقیناً، 20 لاکھ سے زائد افراد کی جبری بے دخلی کوئی آسان معاملہ نہیں، خاص طور پر جب اسرائیل ہر قسم کے تشدد کے ذریعے بے دخلی کی کوششوں میں بری طرح ناکام ہو چکا ہے۔ تو پھر ٹرمپ ان پاگل پن پر مبنی خیالات کو کیسے عملی جامہ پہنائیں گے، جبکہ ان کے پاس نہ تو کافی فوجی قوت ہے اور نہ ہی اسرائیل سے زیادہ تباہ کن طاقت؟
اسرائیل نے تقریباً 3 لاکھ فوجی تعینات کیے اور خیال کیا جاتا ہے کہ اس نے غزہ میں تقریباً 2 ہزار مسلح فوجی گاڑیاں کھو دی ہیں۔ ایسے میں، جب اس کے پاس مناسب فوجی قوت ہی نہیں، تو ٹرمپ اسے کیسے ممکن بنا سکتے ہیں؟ کیا وہ اس کا واحد حل یہ سمجھتے ہیں کہ غزہ کے عوام کو بھوکا مار دیا جائے؟ ایسا سوچنا بھی حیران کن نہیں، کیونکہ یہ ان کی ذہنیت سے میل کھاتا ہے۔ لیکن ہم پہلے ہی ان ممالک کی طرف سے اس خیال کو مسترد ہوتے دیکھ چکے ہیں جنہیں انہوں نے ممکنہ نقل مکانی کے مقامات کے طور پر تجویز کیا تھا، جن میں سب سے نمایاں مصر اور اردن ہیں۔
مزید برآں، جب ٹرمپ نے غزہ کی تعمیرِ نو اور اسے ایک سیاحتی مقام میں تبدیل کرنے کے حوالے سے وضاحت دی، تو انہوں نے دعویٰ کیا کہ عرب ممالک، جو بے پناہ دولت رکھتے ہیں، اس منصوبے کی مالی اعانت فراہم کریں گے۔ یہ سوچ بے مثال تکبر اور توہین کا مظہر ہے، کیونکہ وہ نہ صرف فلسطینی عوام کو عرب ممالک میں بے دخل کرنا چاہتے ہیں اور ان کی قومی سلامتی کو خطرے میں ڈال رہے ہیں، بلکہ وہ یہ توقع بھی رکھتے ہیں کہ عرب— خاص طور پر سعودی عرب— ایک ایسے منصوبے کی مالی معاونت کریں جو ان کی اپنی سلامتی کو کمزور کر سکتا ہے اور بڑے پیمانے پر تشدد اور تنازعات کو جنم دے سکتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ سعودی عرب اور دیگر عرب ممالک نے اس تجویز کو سختی سے مسترد کر دیا۔ سعودی حکام، خاص طور پر ولی عہد محمد بن سلمان، نے کسی بھی ممکنہ اسرائیل-سعودی سفارتی تعلقات کو ایک مکمل خودمختار فلسطینی ریاست کے قیام سے مشروط کر دیا، جس کا دارالحکومت یروشلم ہو، جیسا کہ اصل میں سعودی عرب کی پیش کردہ عرب امن منصوبے میں ذکر کیا گیا تھا۔
نیتن یاہو کا ردعمل بھی حیران کن تھا، جب انہوں نے تجویز دی کہ سعودی عرب کو اپنی سرزمین پر ایک فلسطینی ریاست قائم کرنی چاہیے۔ یہ مؤقف، جو ٹرمپ کے تکبر اور توہین کی توسیع معلوم ہوتا ہے، نہ صرف سعودی-اسرائیل تعلقات بلکہ مجموعی طور پر عرب-اسرائیل تعلقات کو مزید مشکل بنا سکتا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ، یہ سعودی-امریکا تعلقات کو بھی شدید نقصان پہنچا سکتا ہے، جنہیں ٹرمپ کے دورِ صدارت میں مزید مضبوط ہونے کی توقع تھی، خاص طور پر اس پس منظر میں کہ انہوں نے سعودی عرب سے کھربوں ڈالر کا مطالبہ— بلکہ حکم— دیا تھا۔
چاہے ٹرمپ اس حقیقت کو تسلیم کریں یا نہیں، ان کا حالیہ مؤقف درحقیقت ان کی اپنی خارجہ پالیسی کے اصولوں کو مکمل طور پر تحلیل کر رہا ہے، جو بظاہر جنگوں کے خاتمے اور نرم سفارتی دباؤ پر مبنی تھے۔ حقیقت میں، یہ ایک ایسے سلسلے کا آغاز ہو سکتا ہے جس کے سامنے 7 اکتوبر کی جنگ بھی معمولی محسوس ہو۔ تقریباً سبھی سے دشمنی مول لینے کے بعد، ٹرمپ اب ایک ایسے ہاتھی کی مانند ہیں جو شیشے کی دکان میں گھس آیا ہو۔ اس صورت حال میں عرب ممالک کے لیے ضروری ہو جاتا ہے کہ وہ نہ صرف اسرائیل بلکہ اس کے مغربی حمایتیوں، خاص طور پر امریکا کے ساتھ اپنی پالیسیوں پر نظرثانی کریں، اگر وہ اپنی سالمیت برقرار رکھنا چاہتے ہیں۔
یہ کہنے کی ضرورت نہیں کہ اسرائیلی پالیسیوں نے خطے کو ناقابلِ تصور مصائب میں مبتلا کر رکھا ہے— ایک پوری قوم کو ان کے وطن سے بے دخل کر دیا، عرب علاقوں پر قبضہ کیا، جن میں اسلامی و مسیحی مقدس مقامات بھی شامل ہیں، اور ایک قدیم قوم کے حقوق کو پامال کیا، جس کی تاریخ ہزاروں سال پر محیط ہے۔ یہ پالیسیاں مزید تباہی اور سانحات کو جنم دے رہی ہیں، جو ایک ایسی برتر نسل پرستی پر مبنی ہیں جو انسانی برابری کو تسلیم نہیں کرتی، بلکہ کمزوروں کے لیے ایک اصول اور طاقتوروں کے لیے دوسرا اصول اپناتی ہے۔
اسرائیل کے حملے، خاص طور پر شام میں بشار الاسد کی حکومت کے زوال اور اس کی فوجی طاقت کی تباہی کے بعد، ناقابلِ تصور جرائم کے زمرے میں آتے ہیں، جو اربوں ڈالر میں پڑے۔ یہ سب کچھ "احتیاطی حملوں” کے نام پر کیا گیا، اور اسرائیل نے اب یہ حق بھی خود کو دے دیا ہے کہ وہ دوسروں کو محض نیتوں پر بھی مجرم ٹھہرا سکے، جیسا کہ ایرانی جوہری منصوبے کے معاملے میں نظر آیا۔ وہ تمام منطق اور استدلال کو مسترد کرتے ہوئے اپنی من مانی پالیسیاں نافذ کر رہا ہے، کیونکہ اسے بین الاقوامی برادری، خاص طور پر امریکا کی مکمل سرپرستی حاصل ہے، جو ان جرائم پر خاموش تماشائی بنا ہوا ہے۔
بار بار کے واقعات نے یہ ثابت کیا ہے کہ اسرائیل کے ساتھ تعاون کو ختم کرنا ناگزیر ہے، کیونکہ وہ خود کو ہر قانون سے بالاتر سمجھتا ہے۔ اسرائیل کے ساتھ اس ملی بھگت کی پالیسی پوری دنیا کو ایک نہ ختم ہونے والے تشدد کے دائرے میں گھسیٹ رہی ہے، جو نہ صرف علاقائی استحکام بلکہ عالمی امن کو بھی خطرے میں ڈال سکتی ہے۔ فلسطینی مسئلہ ہمیشہ سے ایک ایسا آئینہ رہا ہے جس میں دنیا خود کو دیکھ سکتی ہے، لیکن افسوس کہ دنیا نے ہمیشہ اپنے مفادات کی خاطر اس سے منہ موڑنے کو ترجیح دیہ ے۔
تحریر: ڈاکٹر محمد مکرّم بلعاوی