(روز نامہ قدس ۔آنلائن خبر رساں ادارہ ) گذشتہ تہتر سال سے اسرائیل کی صیہونی حکومت مظلوم فلسطینی عوام پر مختلف انداز سے مختلف مظالم اور زیادتیاں جاری رکھے ہوئے ہے۔ جہاں اسرائیل اپنے مظالم میں سخت سے سخت ترین ہوتا جا رہا ہے، ویسے ہی فلسطینی عوام اپنی استقامت میں مضبوط ہوتے جا رہے ہیں۔ عالمی سطح پر مسئلہ فلسطین تقریباً دنیا کے تمام فورمز پر موجود ہے اور کبھی کبھار زیرِ بحث بھی آجاتا ہے لیکن مسئلے کا حل اس لئے نہیں نکل رہا کہ اسرائیل کی حامی اور سرپرست طاقتیں اپنی دھونس کے ذریعے دیگر ممالک کو بلیک میل کرتی ہیں۔ عالمی فورمز میں مخصوص قوتوں کے پاس موجود ویٹو پاور نے انصاف کے سارے پلڑے ایک ہی جانب جھکائے ہوئے ہیں۔ امریکہ و اسرائیل اور ان کے یورپی و عرب حامی یا غلام عالمی فورمز پر فلسطینی عوام کے حقوق پر ڈاکہ ڈالنے کے لیے ہمہ وقت موجود ہیں۔
مسلم امہ مجموعی طور اسرائیل کے معاملے میں انتشار و اختلاف کا شکار رہی ہے، پانچ سال قبل تک تو معاملہ فقط انتشار و اختلاف یا موقف کے الگ الگ ہونے تک رہا ہے، لیکن اب پانچ سال سے معاملہ اسرائیل سے دوستی اور تعلق بڑھانے تک پہنچ چکا ہے۔ ماضی میں اختلاف اس بات پر تھا کہ مسئلہ فلسطین کا مقدمہ کیسے لڑا جائے؟ مسئلہ فلسطین کو عالمِ اسلام کا مسئلہ کیسے منوایا جائے؟ امت مسلمہ کو بیت المقدس کے نام پر کیسے جمع کیا جائے؟ اسرائیل کو ناکام بنانے کے لیے عالمی سطح پر کیا کیا اقدامات کئے جائیں؟ لیکن اب صورت حال یکسر بدل گئی ہے۔ اب ہر ملک میں یہ بحث چھڑی ہوئی ہے کہ اسرائیل سے تعلقات کتنے مضبوط کئے جائیں؟ اسرائیل و امریکہ کی خوشنودی کے لیے کیا کیا حربے استعمال کئے جائیں؟ فلسطینی تحریکوں کو ناکام بنانے کے لیے کس طرح کا موقف اختیار کیا جائے؟ حتیٰ کہ عالمی اداروں میں اسرائیلی موقف کا کیسے ساتھ دیا جائے۔؟
امت مسلمہ کی مجموعی غیرت بھی زیر ِسوال آچکی ہے، کیونکہ بات اگر کسی ایک ملک یا خطے کی ہوتی تو کوئی فرق نہیں پڑنا تھا۔ بات اگر کسی قوم قبیلے کی ہوتی تو بھی مسئلہ نہیں تھا لیکن یہاں مسئلہ کسی ملک یا خطے کا نہیں۔ نہ ہی مسئلہ کسی قوم قبیلے کا ہے بلکہ مسئلہ بیت المقدس اور قبلہ اول کا ہے اور مسئلہ ایک مظلوم قوم کا ہے۔ اصولی و اخلاقی طور پر دنیا کے ہر مسلمان کو اس بات پر دکھ ہونا چاہیئے کہ ان کا قبلہ اول صیہونی قبضے میں ہے، جو خلاف ِاسلام بلکہ اسلامی حمیت و غیرت کے منافی ہے۔ قبلہ اول کی تاریخی حیثیت کا تقاضا ہے کہ اسے مسلمانوں کے زیر ِانتظام ہونا چاہیئے۔ لیکن عالم ِاسلام کی اکثریت اگرچہ عوامی سطح پر قبلہ اول بیت المقدس سے محبت کرتی اور ہمدردی رکھتی ہے اور چاہتی ہے کہ قبلہ اول پر مسلمانوں کا کنٹرول ہو، لیکن عالمِ اسلام کے اکثر ممالک پر قابض حکمران اس عوامی اور اسلامی تقاضے کے خلاف موقف بھی رکھتے ہیں اور اقدامات بھی کرتے ہیں۔
عرب ممالک کی اکثریت اب قبلہ اول کو پشت دکھا چکی ہے اور فلسطینی عوام کے خون کی پرواہ نہ کرتے ہوئے اسرائیل کے ساتھ محبتوں کی پینگیں بڑھا چکی ہے۔ عرب حکمران بالخصوص سعودی حکومت تو ہنود و یہود اور صیہونیت کی بے دام غلام بنتی نظر آرہی ہے۔ امریکی ایما پر آئے روز اسرائیل کے ساتھ نئے سے نئے معاہدے سامنے آرہے ہیں۔ ان معاہدوں سے جہاں سعودی اور اسرائیلی قربت میں اضافہ ہو رہا ہے، وہاں سعودی عرب قبلہ اول سے دور تر ہوتا چلا جارہا ہے۔ بدقسمتی سے عرب لیگ اور او آئی سی میں موجود اسلامی ممالک بھی سعودی بلیک میلنگ میں آچکے ہیں، جس کی وجہ سے قبلہ اول اور فلسطین کے حق میں آواز بلند نہیں ہو پا رہی، جس سے عالمی سطح پر قدس اور فلسطین کا مسئلہ دبتا چلا جا رہا ہے۔
مسئلہ فلسطین کی ترجمانی اور بیت المقدس کی آزادی کی تحریکوں میں پاکستان اور ایران اس وقت سرخیل اور رہنماء کی حیثیت سے سامنے ہیں اور مسلسل استقامت کے ساتھ جدوجہد کر رہے ہیں۔ پاکستان کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ اس نے صیہونی ریاست کے قیام کے دن سے ہی اس کی نہ صرف مخالفت کی ہے بلکہ بہت شدت کے ساتھ اپنا اصولی موقف اختیار کیا، جو عالمِ اسلام اور عالمِ انسانیت کے ہر انصاف پسند شخص کو اختیار کرنا چاہیئے۔ یہ اعزاز بھی پاکستان کے حصے میں آیا ہے کہ اس نے سرکاری سطح پر پالیسی کی شکل میں اسرائیل کے خلاف طے کر دیا ہوا ہے کہ اسرائیل جب تک فلسطینی ریاست کا قیام نہیں ہونے دیتا اور جب تک قبلہ اول سے اپنا ناجائز تسلط ختم نہیں کر لیتا، تب تک اسرائیل کو تسلیم نہیں کیا جائے گا۔ اسرائیل کے ناجائز ریاست ہونے کی اصطلاح بھی سب سے پہلے بانی پاکستان حضرت قائدِ اعظم محمد علی جناح نے استعمال کی تھی۔ آج پاکستان واحد ملک ہے، جس کے پاسپورٹ پر اسرائیل میں داخلہ ممنوع قرار دیا گیا ہے، حالانکہ اس فیصلے کے خمیازے پاکستان کئی مدت سے بھگتتا چلا آرہا ہے، لیکن اس پالیسی میں تبدیلی نہیں لائی گئی۔ اصولی طور پر اور اسلامی و قومی غیرت کا تقاضا تھا کہ اس قسم کی سخت پالیسی سعودی عرب اور دیگر عرب ممالک کی طرف سے اختیار کی جاتی، لیکن معاملہ بالکل الٹ ہے۔
پاکستان کے بعد ایران واحد ملک ہے، جس نے انقلاب ِاسلامی کے رونما ہونے کے بعد اسرائیل کے حوالے سے واضح اور سخت پالیسی اختیار کی۔ ایران بھی پاکستان کی طرح ایک عجمی ملک ہے، ان دونوں عجمی ممالک نے قبلہ اول کی آزادی اور فلسطینی ریاست کے قیام کو عالم ِاسلام کا مسئلہ قرار دے کر ملی و اسلامی غیرت کے تحت اقدامات کئے اور پوری دنیا کے مسلمانوں کو اس مسئلے کے حوالے سے بیدار کیا۔ بدقسمتی ہے کہ سعودی عرب سمیت اکثر عرب ممالک نے پاکستان اور ایران کی اس پالیسی کی تائید نہیں کی۔ نہ صرف تائید نہیں کی بلکہ مختلف مواقع پر مخالفت کی اور عالمی اداروں میں اس مسئلے کے بیان اور حل میں رکاٹیں ڈالیں۔ ایران میں اسلامی انقلاب کی برآمدگی کے بعد رہبر انقلاب حضرت امام خمینی رضوان اللہ تعالیٰ نے قبلہ اول پر اسرائیلی تسلط اور فلسطینیوں پر ہونے والے مظالم کے خلاف آواز کو مضبوط کیا، یوں تو پورا سال ہی یہ فریضہ انجام دیا جاتا رہتا تھا، لیکن امام خمینی نے صرف اس مسئلے کو اجاگر کرنے کے لیے سال میں ایک دن مخصوص کیا، یہ ماہ ِرمضان المبارک کا آخری جمعہ یعنی جمعۃ الوداع کا ہے۔ تاکہ اس دن پورا عالم ِ اسلام یکجا و متحد ہوکر اپنے قبلہ اول بیت المقدس کے ساتھ اپنی عقیدت کا اظہار کرے اور اس کی آزادی کی جدوجہد تیز کرنے کا عزم کرے۔
اسی طرح اس دن اپنے مظلوم فلسطینی بھائیوں کے ساتھ یکجہتی کا اظہار کرتے ہوئے آزاد فلسطینی ریاست کے قیام کی جدوجہد میں ان کا ساتھ دینے کے اقدام کی تجدید کرے۔ اس لئے امام خمینی نے اس دن کو ”عالمی یوم القدس“ کے نام سے متعارف کرایا۔ پاکستان میں امام خمینی کے نمائندے اور ملت جعفریہ پاکستان کے قائد نے اس اعلان اور قائد ِاعظم محمد علی جناح کی پالیسی پر لبیک کہتے ہوئے ملک گیر سرگرمیوں کا آغاز کیا، جس کے تحت پاکستان کی ہر چھوٹے بڑے شہر میں احتجاجی مظاہرے، سیمینارز، ریلیاں اور دیگر نوعیت کے پروگرام منعقد ہوتے ہیں۔ جس میں پاکستان میں بسنے والے تمام اسلامی مکاتب فکر کے علماء، دینی و سیاسی جماعتوں کے قائدین، سماجی شخصیات اور معاشرے کے تمام طبقات حتیٰ کہ اقلیتوں کے نمائندگان و عوام بھی شرکت کرتے ہیں اور قبلہ اول و فلسطین پر اسرائیلی و صیہونی تسلط کی مذمت کرتے ہوئے آزادی کے مطالبے کی حمایت کرتے ہیں۔
اسی تسلسل میں آج ماہ رمضان کے آخری جمعہ (جمعۃ الوداع) پورے ملک میں یوم القدس منایا جا رہا ہے۔ ہم سب کی ذمہ داری ہے کہ یوم القدس کو عام دن نہیں بلکہ خاص دن کے طور پر منائیں اور قبلہ اول سے اپنی ایمانی وابستگی کا اظہار کریں، اپنے مظلوم فلسطینی بھائیوں کے ساتھ قلبی یکجہتی کا اظہار کریں۔ اقوام متحدہ اور سلامتی کونسل کی بھرپور مذمت کریں، جنہوں نے اس مسئلے کے حل کے لیے امریکی و اسرائیلی کٹھ پتلی کا کردار جاری رکھا ہوا ہے۔ او آئی سی اور عرب لیگ جیسے اداروں کی بے حسی اور غیر ذمہ دارانہ کردار کی مذمت کریں، جو مصلحت پسندی اور اپنے مفادات کی خاطر قبلہ اول اور فلسطین سے روگردانی اختیار کئے ہوئے ہیں۔ اسی طرح اسلامی ممالک پر قابض اکثر حکمرانوں کی بھی مذمت کریں، جو امریکی و یورپی غلاموں کا کردار ادا کرکے اپنے ممالک کے عوام کے جذبات و احساسات کے خلاف اقدامات کر رہے ہیں۔ ہمارا یقین ہے کہ اگر ہم اسرائیل پر لشکر کشی نہ بھی کریں، مگر یوم القدس مکمل وحدت و اخوت و یکجہتی کے ساتھ عالم ِ اسلام کے کونے کونے میں منائیں اور سارا عالم اسلام اٹھ کھڑا ہو تو اسرائیل ایک دن بھی کرہ ارض پر قائم نہیں رہ سکتا اور قبلہ اول کی بازیابی اور فلسطین کی آزادی یقینی بنائی جا سکتی ہے۔
تحریر : علامہ محمد رمضان توقیر
بشکریہ اسلام ٹائمز