(روزنامہ قدس ۔آن لائن خبر رساں ادارہ) میرے اجداد نے اس ریاست کا خواب دیکھا تھا ، اگر وہ حقیقت پسندی سے سے فیصلہ کرتے تو وہ کبھی اس ملک میں ایک اقلیت سے ایک ایسی اکثریت کو بدلنے کی کوشش نہیں کرتے جو صدیوں سے یہاں آباد تھی ، اب اپنی زندگی کے آخری حصے میں پہنچے کے بعد مجھے احساس ہورہا ہے کہ کہانی کا آغاز صیہونیت سے ہوا تھا جوخالصتاًایک یہودی ریاست کے قیام کا خیال تھاجس کا مقصد صرف یہودیوں کی زندگیاں بچانا نہیں بلکہ قابض بن کر ایک ایسی قوم کو اس ملک سے بے دخل کرنا تھا جو صدیوں سے وہاں آباد تھی۔
بانیان صیہونی ریاست اسرائیل ایک فرد موشے شریٹ کے 92 سالہ بیٹے ‘یعقوف شریٹ’ نے برطانوی ویب سائٹ مڈل ایسٹ آئی کو دیے گئے انٹرویو میں قابض صیہونی ریاست کے فلسطین پر جبری قبضے پر شرمندگی کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ اگرچہ میں اسرائیل کے بانی موشے شریٹ کا بیٹا ہوں تاہم اس کے باوجود میں صہیونی ریاست کے جرائم کی حمایت نہیں کرسکتا۔
ان کا کہنا ہے کہ انہیں نہ صرف سنہ 1940ء کی دھائی میں جزیرہ نما النقب پر سمجھوتے پر افسوس ہے بلکہ وہ صہیونی ریاست کے پورے منصوبے پر شرمندہ ہیں انھوں نے کہا کہ میرے پاس جزیرہ نقب اور 1948ء کے مقبوضہ فلسطینی علاقوں سے فلسطینیوں کی بے دخلی کے ٹھوس شواہد ہیں، میں جانتا ہوں کہ فلسطین پر اسرائیلی ریاست کے قیام کے وقت فلسطینیوں پر بے پناہ مظالم ڈھائے گئے۔
واضح رہے کہ یعقوف شریٹ کے داد یعقوف شرتوک دنیا بھر سے صہیونیوں کو فلسطین میں لاکر انہیں بسانے میں پیش پیش رہے تھے ، انہوں نے 1882ء کو یوکرائن چھوڑ کر فلسطین میں منتقل ہونے اور یہودیوں کو فلسطین میں غیرقانونی طور پرآباد کرنے کی مہم شروع کی تھی،جبکہ یعقوب شریٹ کے والد موشے شریٹ قابض صیہونی ریاست کے پہلے وزیر خارجہ اور دوسرے وزیر اعظم تھے جنہوں نے سنہ 1954ء سے 1955ء کے دوران اسرائیل میں وزارت عظمیٰ کا قلم دان سنھبالا۔