(روزنامہ قدس ـ آنلائن خبر رساں ادارہ) دنیا بھر سے ایک ہزار آٹھ سو سے زائد اداکاروں، فنکاروں اور پروڈیوسروں نے جن میں متعدد بڑے ہالی ووڈ ستارے بھی شامل ہیں ایک حلف نامے پر دستخط کیے ہیں۔ ان فنکاروں نے اعلان کیا ہے کہ وہ کسی بھی ایسے قابض اسرائیلی فلمی ادارے کے ساتھ کام نہیں کریں گے جو فلسطینی عوام کے خلاف نسل کشی کے جرائم میں ملوث ہے۔
کئی فلمی کمپنیوں کو قابض اسرائیلی حکومت کے ساتھ روابط کی وجہ سے بائیکاٹ کی تحریک اور شدید احتجاج کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ یہ صورتحال خاص طور پر اس وقت شدت اختیار کر گئی ہے جب غزہ میں انسانی بحران عروج پر ہے ،گزشتہ دو سال سے جاری نسل کشی اور بھوک سے تڑپتے فلسطینیوں بالخصوص معصوم بچوں کی تصاویر نے عالمی ضمیر کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔
اس بائیکاٹ کے حلف نامے میں کہا گیاہے کہ ہم فلم سازوں کی اس تحریک سے متاثر ہیں جس نے جنوبی افریقہ میں نسل پرستی کے دور میں اپنی فلموں کی نمائش سے انکار کیا تھا۔ ہم عہد کرتے ہیں کہ ہم اپنی فلمیں نہ تو قابض اسرائیلی فلمی اداروں میں پیش کریں گے اور نہ ہی ان کے ساتھ کسی بھی قسم کی شراکت داری کریں گے۔ اس میں فلمی میلے، سنیما گھر، نشریاتی ادارے اور پروڈکشن کمپنیاں سب شامل ہیں جو فلسطینی عوام کے خلاف نسل کشی اور نسل پرستی کے منصوبوں کا حصہ ہیں۔
حلف نامے میں یہ بھی واضح کیا گیا کہ یہ اقدام انفرادی صہیونی شہریوں سے تعلقات منقطع کرنے کے لیے نہیں، بلکہ فلمی صنعت کے ان اداروں کا بائیکاٹ کرنے کے لیے ہے جو قابض اسرائیل کی انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں میں براہِ راست شریک ہیں۔ فنکاروں نے اس بات پر بھی زور دیا کہ قابض اسرائیلی فلمی ادارے یا تو فلسطینیوں پر ہونے والے مظالم کو چھپاتے ہیں یا پھر ان کے لیے جواز پیش کرتے ہیں۔
بیان میں عالمی عدالتِ انصاف کے گزشتہ سال کے اس فیصلے کا بھی حوالہ دیا گیا جس میں فلسطینی علاقوں پر قابض اسرائیل کے قبضے کو غیر قانونی قرار دیا گیا تھا۔ مزید برآں، کئی ماہرین اور محققین نے قابض اسرائیل کے غزہ پر فوجی حملوں کو نسل کشی سے تعبیر کیا ہے جسے خبر رساں ادارے رائٹرز نے بھی رپورٹ کیا ہے۔
حلف نامے پر دستخط کرنے والے نمایاں فنکاروں میں اولیویا کولمین، ایما اسٹون، مارک رافالو، ٹلڈا سوئٹن، رِز احمد، خاویر بارڈیم اور سنتھیا نِکسن جیسے بڑے نام شامل ہیں۔
یہ مہم اس وقت مزید زور پکڑ گئی جب "صوتِ ہند رجب” کے نام سے ایک فلسطینی بچی پر بنائی گئی فلم نے وینس فلم فیسٹیول میں سلور لائن ایوارڈ جیتا۔ یہ فلم پانچ سالہ فلسطینی بچی ہند رجب کی کہانی پر مبنی ہے، جسے گزشتہ سال قابض اسرائیلی فوج نے غزہ میں قتل کر دیا تھا۔
یاد رہے کہ ساتھ اکتوبر 2023 سے قابض اسرائیل امریکہ کی حمایت سے غزہ میں کھلی نسل کشی میں ملوث ہے۔ اب تک چونسٹھ ہزار چار سو پچپن فلسطینی شہید، ایک لاکھ باسٹھ ہزار ساتھ سو چھہتر زخمی اور نو ہزارسے زائد لاپتہ ہو چکے ہیں۔ لاکھوں افراد بے گھر ہیں اور قحط کے باعث تین سو ترانوے فلسطینی اپنی جان گنوا چکے ہیں جن میں ایک سو چالیس معصوم بچے بھی شامل ہیں۔