(روزنامہ قدس ۔آن لائن خبر رساں ادارہ)عالمی استعماری طاقتوں کی جانب سے اسلامی دنیا کے اندر اسرائیل نامی جعلی اور ناجائز ریاست کی تشکیل کے بعد اس ظالمانہ اقدام کے خلاف اسلامی مزاحمت نے جنم لیا۔
یہ اسلامی مزاحمت ایک طویل تاریخ کی حامل ہے۔ امریکہ اور برطانیہ کی سربراہی میں مغربی استعماری طاقتوں نے اسلامی مزاحمت کو توڑنے کیلئے انتہائی مکاری سے کام لیتے ہوئے امن مذاکرات کا سلسلہ شروع کیا۔ مغربی طاقتوں کے اس جال میں بڑے بڑے اسلامی حکمران پھنس گئے جن میں مصر کے صدر انور سادات، تحریک آزادی فلسطین کے سربراہ یاسر عرفات اور دیگر کئی رہنماوں کے نام قابل ذکر ہیں۔ ایک عرصے تک مغربی طاقتیں مسلمان رہنماوں کو امن مذاکرات کا جھانسہ دے کر انہیں دھوکہ دیتی رہیں اور یوں مسلح جدوجہد اور جہاد کے حامی گروہوں کو کمزور کرنے کی کوشش کرتی رہیں۔ یوں اسلامی دنیا دو دھڑوں میں تقسیم ہو چکی تھی۔
ایک دھڑا مسلح جہاد کے ذریعے فلسطین کی آزادی کا خواہشمند تھا جبکہ دوسرے دھڑے کی نظر میں مسئلہ فلسطین کا حال امن مذاکرات کے ذریعے نکالنا بہتر تھا۔ آخر میں جب ڈونلڈ ٹرمپ نے سینچری ڈیل نامی منصوبے کا اعلان کیا تو بلی تھیلے سے باہر آ گئی اور سب اچھی طرح جان گئے کہ مغربی طاقتیں مسئلہ فلسطین کے معاملے میں حقیقت میں غیرجانبدار نہیں بلکہ وہ اسرائیل کی حمایت جانبداری کا شکار ہیں لہذا وہ اس مسئلے میں ثالثی کا کردار ادا کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتیں۔ دوسری طرف متحدہ عرب امارات کی جانب سے فلسطین کاز سے واضح غداری اور اسرائیل کو تسلیم کر لئے جانے کے بعد فلسطین میں مجاہد گروہوں نے اس بات کا شدت سے احساس کیا کہ انہیں آپس میں متحد ہو کر اسرائیل کے خلاف نبرد آزما ہونا چاہئے۔
اس سلسلے میں حال ہی میں ایک بہت بڑی پیشرفت حاصل ہوئی ہے۔ لبنان کے دارالحکومت بیروت میں فلسطین کے تمام گروہوں نے مشترکہ اجلاس منعقد کیا اور مقبوضہ فلسطین پر اسرائیل کے ناجائز قبضے کے خاتمے کیلئے مسلح جدوجہد اور مزاحمت کا راستہ اختیار کئے جانے پر اتفاق رائے کا اظہار کیا ہے۔ اس اجلاس کے انعقاد میں اسلامی مزاحمت کی تنظیم حماس نے مرکزی کردار ادا کیا ہے۔ حماس کے سیاسی شعبے کے سربراہ اسماعیل ہنیہ نے اس اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ ملت فلسطین اور اس کے حامیوں کے سامنے اس وقت صرف ایک راستہ موجود ہے اور وہ مزاحمت خاص طور پر مسلح جہاد کی بنیاد پر علاقائی اتحاد تشکیل دینا ہے۔ ہم صرف اس صورت میں امریکہ اور اسرائیل کی جانب سے درپیش اسٹریٹجک خطرات کا مقابلہ کر سکتے ہیں۔
اسلامی مزاحمت کی تنظیم حماس کے رہنما اسماعیل ہنیہ نے مزید کہا: "ہم یہاں اس بات کا اعلان کرنے کیلئے جمع ہوئے ہیں کہ ملت فلسطین اپنی سرزمین کے اندر اور باہر ایک متحد اور منظم قوم کی صورت میں قائم رہے گی۔” انہوں نے مزید کہا: "ہماری مزاحمت جو اس سے پہلے اپنی تمام تر توانائیوں کے ذریعے آپ کیلئے آزادی کا تحفہ فراہم کر چکی ہے ایک بار پھر عہد کرتی ہے کہ آپ کو ہر قسم کی قید سے آزادی دلائے گی۔ لبنان نے صہیونی دشمن کا غرور خاک میں ملا دیا اور لبنان میں اسلامی مزاحمت درحقیقت مقبوضہ فلسطین کے اندر ہماری قوم کی مزاحمت کا تسلسل ہے۔ لبنان میں ہمارے کیمپس مزاحمت اور استقامت کے قلعے ہیں جو واپسی کی چابی کی حیثیت رکھتے ہیں۔ یہ کیمپس استحکام اور اتحاد کا مظہر باقی رہیں گے۔”
اسلامی مزاحمتی بلاک میں رونما ہونے والا ایک بڑا اور اہم واقعہ لبنان میں حماس کے رہنما اسماعیل ہنیہ کی حزب اللہ لبنان کے سیکرٹری جنرل سید حسن نصراللہ سے ملاقات ہے۔ اس ملاقات میں دونوں رہنماوں نے اسلامی مزاحمتی بلاک کی طاقت میں اضافے اور درپیش چیلنجز کے مقابلے میں اس کی استقامت پر زور دیا ہے۔ اس ملاقات میں اسماعیل ہنیہ کے نائب شیخ صالح العاروری اور دیگر رہنما بھی شامل تھے۔ ملاقات میں فلسطین، لبنان اور خطے میں رونما ہونے والے سیاسی اور فوجی حالات اور فلسطین کاز کو درپیش خطرات و چیلنجز کا جائزہ لیا گیا۔ اسی طرح سینچری ڈیل اور بعض عرب ممالک کی جانب سے اسرائیل کو تسلیم کئے جانے پر بھی خاص توجہ دی گئی۔ دونوں رہنماوں نے امت مسلمہ کی جانب سے سینچری ڈیل اور مسئلہ فلسطین سے غداری کرنے والے حکمرانوں کے خلاف واضح اور موثر اقدامات انجام دینے کا مطالبہ کیا۔
حال ہی میں تمام فلسطینی گروہوں نے بیروت میں منعقد ہونے والے اس اجلاس اور مغربی کنارے اور غزہ کی پٹی میں کرونا وائرس کے پھیلاو سے متعلق ایک مشترکہ بیانیہ جاری کیا ہے۔ یہ بیانیہ دس نکات پر مشتمل ہے۔ اس میں بیروت اجلاس کو اہم قرار دیا گیا ہے اور اس کی بنیاد پر عملی اقدامات انجام دینے پر زور دیا گیا ہے۔ بیانئے میں مسئلہ فلسطین کے حل کیلئے مسلح مزاحمت کا راستہ اختیار کرنے پر تاکید کرتے ہوئے تمام فلسطین گروہوں سے ایک مشترکہ قومی پالیسی اختیار کرنے کا مطالبہ کیا گیا ہے۔ بیانیے میں کہا گیا ہے کہ پی ایل او اسرائیل سے تعلقات ختم کر دے اور فلسطین اتھارٹی غزہ کی پٹی کے خلاف تمام اقدامات روک دے۔ بیانیے میں متحدہ عرب امارات کی جانب سے اسرائیل کو تسلیم کئے جانے کی مذمت کی گئی ہے اور تمام مسلم ممالک پر زور دیا گیا ہے کہ وہ فلسطین کاز کی حمایت کریں۔
تحریر: علی احمدی
بشکریہ اسلام ٹائمز