(روز نامہ قدس ۔آنلائن خبر رساں ادارہ)غزہ جنگ کے آغاز سے ہی عالمی سطح کے تحقیقاتی اداروں کی رپورٹس میں محققین نے اس بات کی طرف نشاندہی کی ہے کہ غزہ جنگ کی شروعات کے بعد سے غاصب صیہونی حکومت کا بھرم ٹوٹ کر چکنا چور ہو چکا ہے۔
غاصب صیہونی حکومت نے غزہ میں نسل کشی تو ضرور کی ہے لیکن جنگی اہداف میں کامیابی حاصل نہیں ہوئی۔ عالمی سطح پر ا س بات کی تاکید ہو رہی ہے کہ معصوم انسانوں کو قتل کرنا اور نسل کشی کرنا کسی بھی طرح فوجی برتری اور جنگی اہداف کی کامیابیوں کو ثابت نہیں کرتا ہے۔
حماس نے غزہ جنگ بندی کے بعد جس طرح میڈیا وار کے ذریعہ اسرائیل کو ذلیل اور رسوا کیا ہے اس کی کوئی مثال نہیں ملتی، یقینا یہ بے مثال ہے۔ اسی ذلت اور رسوائی کی وجہ سے غاصب صیہونی حکومت اسرائیل مسلسل اس کوشش میں ہے کہ غزہ جنگ بندی کے معاہدے کو سبوتاژ کرے لیکن کامیاب ہونے کا کوئی راستہ نہیں مل رہا ہے۔
غزہ کے عوام کا اپنے ملبے کے ڈھیر ہوئے گھروں کی طرف واپس لوٹ آنا اور ملبہ کے ڈھیر پر عارضی رہائش اختیار کرنا بھی امریکی اور اسرائیلی منصوبوں کو خاک میں ملا رہا ہے۔
جنگ بندی معاہدے کے بعد قیدیوں کے تبادلہ کے بعد منظر پر آنے والی ویڈیوز میں دیکھا جا سکتا ہے کہ اسرائیلی قیدیوں ںنے کس طرح فلسطینی مزاحمت کی تعریف کی ہے اور انہیں اپنی جان کا محافظ قرار دیا ہے یہاں تک کہ حماس کی جانب سے تحائف دئیے جانے کا عمل بھی پوری دنیا کو اپنی طرف متوجہ کر رہا ہے۔
غزہ جنگ بندی معاہدے کے اس تسلسل میں ہی چار اسرائیلی قیدیوں کی لاشیں غاصب صیہونی حکومت کے حوالے کی گئی ہیں جن کے بارے میں اب امریکی اور اسرائیلی ذرائع ابلاغ حماس کے خلاف ایک نیا محاز کھڑا کرنے کی کوشش کررہے ہیں اور ان تمام صیہونی اور مغربی ذرائع ابلاغ کا کہنا ہے کہ حماس نے ان چار قیدیوں کو قتل کر دیا ہے جن میں دو بچے بھی ہیں جبکہ ایک کمسن بچہ بھی شامل ہے۔حالانکہ حماس نےکئی ایک قیدیوں کو رہا کیا ہے جنہوںنے رہائی کے بعد حماس کے مزاحمت کاروں کی تعریف کی ہے اور بتایا ہے کہ انہوںنے کئی مرتبہ ان قیدیوں کی جان بچائی جب ان پر بمباری کی جا رہی تھی۔
حالیہ دنوں چار ہلاک شدگان کی لاشیں دینے کا معاملہ بھی ایسا ہی معاملہ ہے کہ ان چار صیہونی قیدیوں کو براہ راست غاصب صیہونی حکومت اسرائیل نے ہی قتل کیاہے ۔کیونکہ جس وقت حما س کے مراکز کو بمباری کا نشانہ بنایا جا رہاتھا تو ظاہر سی بات ہے کہ قیدی بھی ان کے ساتھ تھے تاہم جہاں مزاحمت کاروں کی شہادت ہوئی وہاں ساتھ ساتھ اسرائیلی قیدی بھی اسرائیلی فوج کی دہشتگردانہ کاروائیوں میں ہلاک ہوئے۔
ایک معقول سوال یہ بھی ہے کہ اگرحماس کو ان چار لوگوں کو قتل کرنا ہی تھا تو پھر باقی سب کو بھی قتل کیا جا سکتا تھا ۔ یا یہ کہ حقائق کو چھپایا جا سکتا تھا لیکن تمام تر قیدیوں کے معاملہ میں ایسا ہر گز نہیں کیا گیا۔
لہذاامریکی و صیہونی ذرائع ابلاغ کے ساتھ ساتھ مغربی ذرائع ابلاغ مسلسل حماس کے خلاف منفی پراپیگنڈا صرف اس لئے کر رہے ہیں کیونکہ ہر گزرتے دن کے ساتھ ساتھ امریکہ اور اسرائیل کی رسوائی میں اضافہ ہو رہا ہے۔ دنیا کے سامنے ان کی طاقت او ر گھمنڈ چکنا چور ہو رہا ہے اور وہ بھی ایک چھوٹے سے گروہ کے ہاتھوں جسے فلسطین میں القسام اور القدس کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔
تمام تر منفی ہتھکنڈوں میں ناکامی کے بعد اب اسرائیل نے ایک نئی کہانی کا آغاز کر دیا ہے یعنی یہ کہا جا رہا ہے کہ چار قیدیوں کی میتوں میں ایک خاتون صیہونی قیدی کی میت وہ نہیں ہے جس کا تقاضہ کیا گیا ہے۔ حماس کاکہنا ہے کہ یہ وہی خاتون ہے جسے اسرائیلی فوج کی وحشیانہ بمباری میں قتل کیا گیا تھا او ر اس کی لاش کے ٹکڑے بمباری کی شدت کے باعث مخلوط ہو گئے تھے تاہم حماس نے کوشش کی تھی کہ اس قیدی خاتون کی نعش کو محفوظ کیا جا سکے۔
خلاصہ یہ ہے کہ غزہ کی جنگ کے آغاز سے جنگ بندی کے معاہدے کے آغاز تک موجودہ حالات میں غاصب صیہونی ریاست اسرائیل مسلسل ناکامی اور ذلت کا شکار ہو تی چلی آئی ہے اور مستقبل میں بھی اگر جنگ بندی کے معاہدے کا دوسرا دور شروع ہوتا ہے تو یقینی طور پر ایک اور شکست اسرائیل کے لیے دستک دے رہی ہے۔
تحریر: ڈاکٹر صابر ابو مریم
سیکرٹری جنرل فلسطین فائونڈیشن پاکستان