روزنامہ قدس ـ آنلائن خبر رساں ادارہ
قابض اسرائیلی حکومت کے سربراہ بنجمن نیتن یاھو نے مصر کے ساتھ کئی ارب ڈالر کے مجوزہ گیس معاہدے پر حتمی دستخط مکمل کرنے کے لیے گرین سگنل دے دیا ہے۔ یہ معاہدہ مالی حجم کے اعتبار سے خطے کی بڑی ڈیلوں میں شمار ہوتا ہے جس کی مالیت کئی ارب ڈالر تک پہنچتی ہے۔
اسرائیلی سرکاری نشریاتی ادارے "کے اے این 11” نے ایک باخبر ذریعے کے حوالے سے بتایا کہ اس معاہدے پر دستخط آئندہ چند دنوں میں متوقع ہیں۔
گذشتہ اگست میں اس ڈیل کی تفصیلات سامنے آئی تھیں جن کے مطابق سنہ 2040 تک اس کی مجموعی مالیت تقریباً 35 ارب ڈالر ہوگی۔ اس میں قابض اسرائیل کی جانب سے مصر کو مخصوص مقدار میں گیس فراہم کرنے کا باضابطہ وعدہ بھی شامل ہے جبکہ مقامی ذخائر پر اس کے ممکنہ اثرات کا جائزہ بدستور جاری ہے۔
رپورٹ کے مطابق دستخطی مراحل کی تیزی کے پس منظر میں امریکہ کی جانب سے حالیہ ہفتوں میں سرگرم سفارتی کوششیں شامل ہیں۔ اسرائیلی ذرائع کا کہنا ہے کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی انتظامیہ نے تل ابیب اور قاہرہ کے درمیان آخری مرحلے کی سفارت کاری میں براہ راست کردار ادا کیا ہے جو کہ واشنگٹن کی اس علاقائی حکمت عملی کا حصہ ہے جسے وہ تشکیل دینا چاہتی ہے۔
ان رپورٹس کے مطابق امریکہ ایک نئے سیاسی ڈھانچے کی راہ ہموار کرنے میں مصروف ہے جس کے تحت ماہ رواں کے آخر میں امریکی ساحلی ریسارٹ مار اے لاگو میں بنجمن نیتن یاھو اور مصری صدر عبدالفتاح السیسی کی ملاقات کا امکان ظاہر کیا جا رہا ہے۔
واشنگٹن کے نزدیک اس گیس معاہدے کی اسرائیلی منظوری ان اقدامات میں سے ایک ہے جو مصر کو اس مجوزہ علاقائی اجلاس میں شریک ہونے کی ترغیب دے سکتی ہے۔ امریکہ یہ بھی سمجھتا ہے کہ اس کے ذریعے تل ابیب اور قاہرہ کے درمیان وہ روابط دوبارہ فعال کیے جا سکتے ہیں جو غزہ پر لگی وحشیانہ جنگ کے باعث کافی متاثر ہوئے تھے۔
امریکی حکام اس گیس ڈیل کو ایک وسیع تر سیاسی اقتصادی پیکیج کا حصہ قرار دے رہے ہیں جس کا مقصد قابض اسرائیل کو علاقائی منصوبوں میں مضبوطی سے جوڑنا ہے جن میں توانائی، ٹیکنالوجی اور مصنوعی ذہانت جیسے منصوبے شامل ہیں۔ اس کے علاوہ مصر، لبنان، شام اور سعودی عرب پر خصوصی توجہ دی جا رہی ہے۔
امریکی حلقوں کا یہ بھی خیال ہے کہ قابض اسرائیل کی گیس مصر کی بجلی کی ضروریات کا ایک حصہ پورا کر سکتی ہے جس سے خطے میں کشیدگی کے امکانات کم ہو سکتے ہیں۔
دوسری جانب قابض اسرائیل کے اندر اس معاہدے کے ممکنہ اثرات پر شدید بحث جاری ہے۔ توانائی کے شعبے سے تعلق رکھنے والے ماہرین نے گیس کی برآمدی ذمہ داریوں سے مقامی ذخائر میں پیدا ہونے والے ممکنہ دباؤ پر شدید تحفظات ظاہر کیے ہیں کیونکہ تخمینوں کے مطابق قابض اسرائیل کے پاس موجود ذخائر مقامی بجلی کی پیداوار کے لیے صرف 15 سے 25 سال تک ہی کافی ہو سکتے ہیں۔
اقتصادی حلقوں نے اندرون ملک بجلی کی قیمتوں پر پڑنے والے ممکنہ اثرات پر بھی تشویش ظاہر کی ہے جبکہ حکمران اتحاد کے اندر یہ جھگڑا بڑھ رہا ہے کہ قاہرہ کے ساتھ اس ممکنہ سفارتی پیش رفت کا کریڈٹ کون لے گا۔