(روزنامہ قدس ۔آن لائن خبر رساں ادارہ) سابق اسرائیلی آرمی چیف نے انکشاف کیا ہے کہ 2018 میں غزہ میں انٹیلی جنس آپریشن میں ناکامی کے بعد بہت سے اسرائیلی فوجی مزاحمت کاروں کے ہاتھوں پکڑے جانے والے تھے تاہم انھوں نے فضائیہ کے سربراہ کو ہدایت دی کہ بھرپورکارروائی کی جائے لیکن اسرائیلی فوجیوں کو مزاحمت کاروں کے ہاتھوں نہیں لگنے دیا جائے۔
عبرانی اخبار "اسرائیل ہیوم” کو دیے گئے ایک انٹرویو میں سابق اسرائیلی آرمی چیف جنرل گڈی آئیزن کوٹ نے کہا ہےکہ نومبر 2018 میں غزہ کے جنوبی شہر خان یونس میں ہونے والی انٹیلی جنس آپریشن کی ناکامی کے نتیجے میں موقع پر موجود بہت سارے اسرائیلی فوجی حماس کی عسکری ونگ القسام بریگیڈ کےمزاحمت کاروں کے ہاتھوں پکڑے جانے سے بچانے کے لیے فضائیہ کے سربراہ کو ہدایت دی تھیں کہ فوجیوں کو بچانے کیلئے جو بس میں آئے کریں اور دفاعی صلاحیت کا بھرپور استعمال کریں۔
سابق آرمی چیف نے مزید کہا کہ یہ بات واضح ہونے کے بعد کہ خان یونس میں اسرائیلی کمانڈو یونٹ کے ذریعہ القسام بریگیڈ کے مجاھدین کے خلاف کیے گئے آپریشن میں ناکامی ہے بعد مجھے احساس ہوا کہ یہ سب سے خطرناک صورتحال ہے اور ہمارے فوجی مشکل میں پھنس چکے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ میں نہیں چاہتا تھا کہ غزہ میں گیلاد شالیت کےجنگی قیدی بنائے جانے کی طرح ایک بار پھر مزید فوجیوں کو فلسطینی مزاحمت کاروں کے ہاتھوں قیدی بنا دیا جائے ۔
آئزن کوٹ نے اسلامی تحریک مزاحمت "حماس” کے ساتھ قیدیوں کے تبادلے کے ایک نئے معاہدے کے امکانات کے بارے میں کہا کہ ہم ماضی کی غلطیوں کی طرف واپس نہیں آسکتے۔جیسا کہ گیلاد شالیت کے رہائی کے دوران ہوا تھا۔ اسرائیل کو اپنے ایک سپاہی کی بازیابی کے لیے بھاری قیمت چکانا پڑی تھی۔خیال رہے کہ نومبر 2018ء کو اسرائیلی فوج نے غزہ کے علاقے خان یونس میں ایک انٹیلی جنس آپریشن کے دوران القسام بریگیڈ کے سات کارکن شہید کردیے تھے جب کہ اس آپریشن میں اسرائیلی فوج کا آپریشن کمانڈر ایک کرنل اور اس کے تین دوسرے ساتھی ہلاک ہوگئے تھے۔