(روز نامہ قدس ۔آنلائن خبر رساں ادارہ) سیاسی پیش رفت غیر قانونی صیہونی ریاست اسرائیل کے اندر قیادت کے شدید بحران کو بے نقاب کر رہی ہے۔ اس صورتحال نے ان آوازوں کو مزید بلند کر دیا ہے جو اس بات پر زور دے رہی ہیں کہ ریاست کو بچانے کے لیے ضروری نہیں کہ نیا رہنما تمام صیہونیوں کے خیالات سے مطابقت رکھتا ہو۔ نہ ہی اس کے لیے کرشماتی شخصیت یا غیر معمولی خطیبانہ صلاحیتیں ضروری ہیں۔ نہ ہی اسے بہترین فوجی یا اعلیٰ درجے کا وکیل ہونا چاہیے، بلکہ بس اتنا کافی ہے کہ وہ ایک ایسی ریاست کے وجود کو برقرار رکھنے کے لیے فکر مند ہو جو زوال کی کھائی میں گر رہی ہے اور جسے کوئی روکنے والا نہیں۔
عبرانی اخبار یدیعوت احرونوت کے تجزیہ کار موتی شکلار نے لکھا کہ "وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ صیہونی یہ سمجھ رہے ہیں کہ ان کے درمیان اختلافات مزید گہرے ہو چکے ہیں اور اب تقریباً کوئی ایسا مسئلہ باقی نہیں رہا جس کا حل کسی اختلاف پر مبنی نہ ہو۔ اس لیے، انہیں ایسی قیادت درکار ہے جو انہیں اس گہرے بحران سے نکال سکے اور ان کی بنیادی بقا کے مسائل کو منظم کر سکے۔ ایسی قیادت جس کے لیے کرشمہ یا غیر معمولی صلاحیتیں ضروری نہ ہوں، بلکہ جس کی اصل فکر ریاست کی بقا ہو۔”
شکلار نے مزید لکھا کہ "ایسی قیادت ریاست کے لیے کسی بھی اور چیز سے زیادہ ضروری ہے۔ افسوس کی بات ہے کہ ہمارے پاس ایسے قائدین نہیں ہیں جو صیہونیوں کے درمیان مشترکہ سوچ پیدا کر سکیں۔ حتیٰ کہ ہمارے بہترین رہنما بھی وسیع تر قومی مفاد کے بجائے صرف اپنی ذاتی مصلحتوں پر نظر رکھتے ہیں۔”
انہوں نے برطرف وزیر یوآف گالانٹ کی مثال دیتے ہوئے کہا کہ "وہ ریاست کی قیادت کا خواہشمند ہے اور جنگ کے دوران اس نے اپنی قیادت کے عزائم کو واضح کیا۔ وہ دیگر وزراء کے برعکس تمام غیر قانونی صیہونی بستیوں میں گیا اور وہاں کے آباد کاروں کے الزامات برداشت کیے، مگر وہ جنگ کی گہرائی میں جانے اور اس کے بنیادی سوالات کے جوابات فراہم کرنے میں ناکام رہا۔ جیسے کہ: یہ صورتحال کیسے پیدا ہوئی کہ صرف ایک قلیل فوجی اقلیت جنگ میں شریک تھی؟ اور ایسی حکومت پر جنگ کے دوران کیسے بھروسہ کیا جائے جس کے بیشتر وزراء کے بیٹے فوج میں شامل ہی نہیں؟”
مزید برآں، انہوں نے نشاندہی کی کہ گالانٹ کی تقریروں میں وہ جوش و جذبہ مفقود تھا جو صیہونیوں کے درمیان یکجہتی پیدا کرے اور انہیں مستقبل کے چیلنجز کا سامنا کرنے کے لیے تیار کرے، خاص طور پر اس وقت جب ریزرو فورسز بھی تھکن کا شکار ہو چکی ہیں۔
انہوں نے واضح کیا کہ "غیر قانونی صیہونی ریاست اسرائیل کے لیے کسی بھی جنگ میں کامیابی کا حصول اس وقت تک ممکن نہیں جب تک قیادت اخلاقی بنیادوں پر قوم کو متحد نہ کرے۔ قیادت کا کام صرف پارلیمانی اکثریت کا فائدہ اٹھا کر سیاسی احکامات جاری کرنا نہیں، بلکہ صیہونی عوام کو جنگ اور قیدیوں کی رہائی جیسے چیلنجز کے لیے قائل کرنا بھی ہے۔ وہ وزراء جو جنگ کو دوبارہ چھیڑنے کا مطالبہ کر رہے ہیں، مگر عوام کو اس کی ضرورت اور جواز پر قائل کرنے کی کوشش نہیں کر رہے، وہ 2006 کی دوسری لبنان جنگ کے اسباق بھول چکے ہیں۔”
انہوں نے کہا کہ "ہر قائد کو اپنے عوام کے جذبات کا ادراک ہونا چاہیے۔ اگر اکثریت قیدیوں کی رہائی کی حمایت کر رہی ہے، تو قیادت کو اس پر توجہ دینی چاہیے۔ موجودہ قیادت کے ماڈل کو بدلے بغیر غیر قانونی صیہونی ریاست اسرائیل کو درپیش چیلنجز کا سامنا کرنا مشکل ہو گا۔ امید ہے کہ آئندہ انتخابات میں ہمیں نئی قیادت دیکھنے کو ملے گی جو قیادت کے ایک مختلف معیار پر مبنی ہو گی۔”