قابض اسرائیل کی اپوزیشن جماعتوں نے وزیر اعظم بنجمن نیتن یاھو کے بیٹے، یائیر نیتن یاھو کو ایک اعلیٰ عہدے پر نامزد کیے جانے کے فیصلے کو یکسر مسترد کر دیا ہے۔ اپوزیشن رہنماؤں نے نیتن یاھو خاندان پر کھلے عام بدعنوانی کے سنگین الزامات عائد کرتے ہوئے کہا کہ یہ اقدام ریاستی اداروں کو ذاتی مفادات کے لیے استعمال کرنے کی ایک اور کوشش ہے۔
قابض اسرائیلی نشریاتی ادارے نے بدھ کی شب انکشاف کیا تھا کہ یائیر نیتن یاھو کو ’عالمی صہیونی تنظیم‘ میں ڈائسپورا اور ابلاغ کے شعبے کی سربراہی کے لیے نامزد کیا گیا ہے، جو ایک نہایت اہم اور مالی طور پر پرکشش عہدہ ہے۔ اس منصب پر تقرری پانے والے کو وہی مراعات اور تنخواہ دی جاتی ہے جو قابض اسرائیلی حکومت کے وزرا کو حاصل ہوتی ہیں۔ بتایا گیا کہ یہ نامزدگی وزیر ثقافت و کھیل میکی زوہر کی جانب سے ایک سیاسی سودے کے تحت سامنے آئی، جس کی ابتدا میں اپوزیشن جماعتوں نے نامعلوم امیدواروں کی فہرست پر بظاہر اتفاق کیا تھا۔
تاہم جب یائیر نیتن یاھو کا نام منظر عام پر آیا تو قابض اسرائیلی پارلیمان اور عالمی صہیونی تنظیم دونوں میں ہلچل مچ گئی، اور فیصلہ فی الحال ملتوی کر دیا گیا۔
تنظیم کی رکن جوستی یھو شوعا بروفرمان نے اس پیش رفت کو “انتہائی ناگوار حیرت” قرار دیتے ہوئے کہا کہ قومی ادارے ذاتی یا خاندانی مفادات کی آماجگاہ نہیں ہونے چاہئیں۔ ان کے مطابق یائیر نیتن یاھو اس عہدے کے اہل نہیں کیونکہ وہ ماضی میں قابض اسرائیلی فوج اور عدلیہ جیسے ریاستی اداروں پر تنقید کر چکے ہیں۔
اپوزیشن لیڈر یائیر لاپید نے سماجی پلیٹ فارم “ایکس” پر لکھا کہ “لیکود پارٹی نے خفیہ طور پر یائیر نیتن یاھو کو وزارتی درجہ کے عہدے پر بٹھانے کی کوشش کی لیکن ہم نے یہ سازش بروقت ناکام بنا دی۔” لاپید نے اعلان کیا کہ ان کی جماعت نیتن یاھو حکومت کی بدعنوانی کے خلاف جدوجہد جاری رکھے گی۔
اسی طرح اپوزیشن کی جمہوری پارٹی کے سربراہ یائیر گولان نے کہا کہ یائیر نیتن یاھو ایک متنازعہ شخصیت ہیں جنہوں نے ہمیشہ تفرقہ اور انتشار کو فروغ دیا۔ ان کے بقول، “ایسا شخص یہودی عوام کی نمائندگی کے لائق نہیں اور نہ ہی اسے عوامی عہدہ یا مالی مراعات ملنی چاہئیں۔”
یہ انکشاف ایک ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب بنجمن نیتن یاھو خود رشوت، دھوکہ دہی اور اعتماد شکنی کے الزامات کے تحت عدالتی کارروائی کا سامنا کر رہے ہیں۔ ان الزامات کے نتیجے میں انہیں جیل کی سزا بھی ہو سکتی ہے۔ علاوہ ازیں نیتن یاھو کے خلاف عالمی فوجداری عدالت نے غزہ میں فلسطینیوں کے خلاف جنگی جرائم کے مقدمے میں گرفتاری کا وارنٹ بھی جاری کر رکھا ہے۔
دوسری جانب وزیر ثقافت و کھیل میکی زوہر نے الزام لگایا ہے کہ اپوزیشن اور میڈیا نیتن یاھو خاندان کے خلاف “شخصی انتقام” کی مہم چلا رہے ہیں۔ ان کے بقول، یائیر نیتن یاھو صرف “صہیونی سفارت کاری کو مضبوط کرنے” کی نیت رکھتے ہیں۔
قابض اسرائیلی میڈیا نے یہ بھی انکشاف کیا ہے کہ یائیر نیتن یاھو گزشتہ دو برس سے امریکہ کے شہر میامی میں مقیم ہیں، اور وہ سنہ2023ء میں غزہ پر شروع ہونے والی جارحیت کے بعد سے وہیں رہائش پذیر ہیں۔ اس انکشاف کے بعد ان کی نامزدگی نے ایک بار پھر شدید عوامی غصے کو جنم دیا ہے۔
واضح رہے کہ عالمی صہیونی تنظیم کی بنیاد سنہ1897ء میں تھیوڈور ہرزل نے سوئٹزرلینڈ کے شہر بازل میں رکھی تھی۔ اس تنظیم کا مقصد صہیونی نظریے کو فروغ دینا ہے اور یہ کئی ذیلی تنظیموں جیسے حداسا، بنی بریتھ، مکابی، عالمی یہودی طلبہ یونین اور دیگر اداروں پر مشتمل ہے۔