(روزنامہ قدس ۔آن لائن خبر رساں ادارہ) دنیا بھر کی طرح فلسطین کے مقبوضہ علاقوں میں بسنے والے مظلوم فلسطینی بھی آج کل کورونا وباء کے شکنجہ میں ہیں۔ ایک طرف غاصب صہیونیوں کی جعلی ریاست اسرائیل کے انسانیت سوز مظالم کا سامنا ہے تو دوسری جانب کورونا کے خطر ناک وار کا بھی مظلوم فلسطینی ملت تن تنہا بغیر کسی وسائل کے مقابلہ کر رہی ہے۔ یعنی ایک اسرائیلی مصیبت کا سامنا ہے تو دوسری مصیبت کورونا ہے۔فلسطین میں تجزیہ نگاروں نے کورونا اور اسرائیل کو ایک جیسی مصیبت ہی قرار دیا ہے بس فرق صرف اتنا ہی ہے کہ ایک کورونا وائرس سنہ1948ء میں فلسطین پر حملہ آور ہوا اور آج دوسرا کورونا وائرس فلسطین پر سنہ2019کے نام سے سامنے آیا ہے۔بہر حال فلسطین کے بہادر اور شجاع فرزندان مزاحمت ہر دو طرح کی مصیبتوں کا خندہ پیشانی سے مقابلہ کر رہے ہیں اور مزاحمتی ہتھیار سے غاصب صہیونی اسرائیلی کورونا اور حالیہ کورونا سے نبرد آزما ہیں۔
کورنائے اسرائیل اور کورونا وباء سے لڑتے ہوئے اس فلسطین پر ستم ظریفی صرف اسرائیل کی ہی نہیں بلکہ اپنے ہی ہم زبان و مذہب عرب مسلمانوں حکومتوں کی بھی جاری ہے جو کہ تیسرے کورونا کے مشابہ ہے۔حال ہی میں سعودی عرب میں ایک ایسے ڈرامہ سیریل کو متعارف کروایا گیا ہے کہ جس کا عنوان اسرائیل عرب دوستی رکھا گیا ہے اس ڈرامہ سیریل کا نام ’ام ھارون‘ رکھا گیا ہے جس میں کوشش کی گئی ہے کہ اسرائیل اور عرب دوستی کو پیش کیا جائے جبکہ ساتھ ساتھ فلسطین کی ریاست اور فلسطین کے تاریخی وجود سے انکار کی جھوٹی اور من گھڑت تاریخ کا پرچار کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ یہ سب کچھ ایسے حالات میں سامنے آرہا ہے کہ جب ایک طرف امریکہ اور اس کے حواریوں نے صدی کی ڈیل نامی منصوبہ کی ناکامی کا زخم اٹھایا ہے لیکن اسی منصوبہ کی آڑ میں عرب حکومتوں کو استعمال کر کے عالمی استعمار اب اپنے مذموم مقاصد کو حاصل کرنا چاہتا ہے۔ اس ڈرامے جس کا نام ‘ام ھارون’ رکھا گیا ہے میں خلیجی ملکوں اور عرب ممالک میں یہودیوں کو مظلومیت کی مثال کے طورپر پیش کیا گیا ہے۔ کویت اور دوسرے خلیجی عرب ملکوں میں یہودیوں کے تاریخی وجود کو تسلیم کیا گیا ہے۔ اس میں صہیونی ریاست کے مکروہ چہر کوخوشما بناکر پیش کیا گیا ہے۔ یہ ڈارمہ سعودی ٹی وی پر’پروڈکشن 7′ سے نشر کیا جا رہا ہے۔ ٹی وی کا پورا مواد صہیونی ریاست سے دوستی کی ترویج پرمشتمل ہے۔
انبیاء علیہم السلام کی سرزمین ارض مقدس فلسطین کی حیثیت اور شناخت کو مسخ کرنے کے لئے بنایا جانے والا اسرائیل عرب دوستی کا ڈرامہ سیریل حال ہی میں سعودی عرب کے ایک ٹی وی چینل ایم بی سی نیٹ ورک پر نشر کیا گیا ہے اور یہ عین ماہ رمضان المبارک کے آغاز پر نشر کیا گیا ہے جس پر نہ صرف سعودی عرب میں شدید تنقید ہو رہی ہے بلکہ دنیا بھر میں اس ڈرامہ سیریل کے مکالمہ اور متن پر شدید اعتراض کے ساتھ اس کو جھوٹ کا پلندہ قرار دیا گیا ہے۔عرب ممالک کی عوام نے اس ڈرامہ سیریل کو پہل اقساط کے نشر ہونے کے ساتھ ہی مسترد کر دیا ہے البتہ اس ڈرامہ سیریل کے بنائے جانے اور نشر کئے جانے سے دنیا بھر میں امریکہ اور اسرائیل سمیت عرب اتحاد کی قلعی ایک بار پھر کھل کر سامنے آ گئی ہے اور دنیا پر واضح ہو چکا ہے کہ عرب حکمران فلسطین کا سودا کرنے پر تلے ہوئے ہیں۔
فلسطین کی سب سے بڑی سیاسی و عسکری جماعت حما س نے سعودی عرب کے ایم بی سی نیٹ ورک پر نشر ہونے والے اسرائیل عرب دوستی ڈرامہ سیریل کے بارے میں واضح موقف اپناتے ہوئے اس ڈرامہ سیریل کو شیطانی چال قرار دے دیا ہے۔حماس کے ترجمان سامی ابو زھری کے بیان کے مطابق اسرائیل کی جعلی ریاست جو ہدف فلسطینیوں کے خلاف توپ اور ٹینک سمیت بھاری اسلحہ استعمال کر کے حاصل نہیں کر سکی ہے وہ ہدف اب سعودی عرب کے حکمرانوں کی اس طرح کی گھناؤنی سازشوں سے حاصل کرنا چاہتی ہے۔
اسی طرح سمندر پار فلسطینی عوام نے بھی سعودی عرب سمیت دیگر خلیجی ممالک کے ٹی وی چینلز پر نشر کئے جانے والے اسرائیل عرب دوستی ڈرامہ سیریل کی شدید مذمت کرتے ہوئے اس اقدام کو مقدس مہینہ رمضان المبارک کی توہین قرار دیا ہے۔
اسرائیل عرب دوستی سے متعلق ڈرامہ سیریل ام ھارون اور دیگر نشریات کا مقصد فلسطین کی اصل اور بنیادی تاریخ کو مسخ کرنا ہے اور فلسطین پر سنہ1948ء میں قائم ہونے والی صہیونیوں کی غاصب اور جعلی ریاست اسرائیل کے قیام کو قانونی جواز فراہم کرنے کی گھناؤنی کوشش ہے۔یہ بات بھی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہے کہ گذشتہ چند برس میں ترکی سمیت سعودی عرب اور دیگر خلیجی عرب ممالک اسرائیل کے ساتھ پس پردہ اور اعلانیہ طور پرمراسم قائم کر رہے ہیں۔
روزنامہ قدس نیوز ایجنسی پاکستان کی ویب سائٹ پر نشر ہونے والی ایک خبر میں اسرائیل عرب دوستی کے عنوان سے سعودی عرب اور دیگر خلیجی عرب ممالک کے ٹی وی چینلز پر نشر ہونے والے ڈرامہ سیریل کے مکالمہ کو پیش کیا گیا ہے۔ڈرامہ سیریز میں دو اداکاروں ناصر القصبی اور راشد الشمرانی کو فلسطینیوں کے بارے میں بات کرتے دیکھا جاسکتا ہے۔ مکالمے میں ناصر القصبی اسرائیلیوں کے ساتھ تعلقات کے قیام پر حیرت کا اظہار کرتا ہے جب کہ الشمرانی کہتا ہے کہ دشمن وہ ہوتا ہے جو آپ کے تعاون اور مشکل میں آپ کا اس کے ساتھ کھڑا ہونے کی قدرنہیں کرتا۔ دشمن وہ ہوتا ہے جو دن رات آپ کو اسرائیلیوں سے زیادہ گالیاں دیتا ہے۔
الشمرانی نے مزید کہا کہ ہم نے آج تک فلسطینیوں کے لیے قربانیاں دیں، فلسطین کے لیے ہم نے جنگیں لڑیں اور فلسطین کے لیے ہم نے اپنا تیل روکا۔جب فلسطینیوں کی حکومت بنی تو ہم نے اس کے اخراجات پورے کیے، اس کے ملازموں کو تنخواہیں دیں۔ ہم اپنے مال کا حق رکھتے ہیں۔ یہ کیسے دوست ہیں جو سعودی عرب پر تنقید کرنے اور اسے برا بھلا کہنے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے۔
اس مکالمے کے جواب میں قصبی کہتا ہے کہ ‘ہاتھوں کی پانچوں انگلیاں برابر نہیں ہوتیں۔ فلسطینی بھی تو آخر سنہ 1948ء میں اپنے ملک سے جبرا نکالے گئے۔ انہیں اجتماعی قتل عام کا نشانہ بنایا گیا۔ مگر یہ فلسطینی ہی ہیں جو تحریک انتفاضہ کے دوران نہتے ہونے کے باوجود اسرائیلی ٹینکوں سے لڑ جاتے تھے۔ کچھ فلسطینیوں نے دیوار فاصل کے لیے فنڈ فراہم کیے۔ وہ بھی دوسروں کی طرح انسان ہی ہیں۔ ان میں اچھے بھی ہیں اور برے بھی مگر یہ اسرائیل ہے جو فلسطینیوں اور عربوں کے درمیان نفرت اور عداوت کے بیج بو رہا ہے۔
اس پر الشمرانی نے کہا کہ ‘یعنی آپ فلسطینیوں کیساتھ کھڑے ہونا چاہتے ہیں۔ یہ وہ فلسطینی ہیں جنہوں نے ہمارے اشراف پرلعن طعن کی’ اس پر القصبی نے کہا کہ ہم حق، اصول اور ضمیر کے ساتھ کھڑے ہیں۔
یہ مکالمہ مزید بھی جاری رہے گا کیونکہ آنے والے دنوں میں اس سازشی ڈرامہ سیریز کے مزید قسطیں بھی نشر کی جائیں گی مگر سوشل میڈیا پر الشمرانی کی گفتگو کو جھوٹ، اسرائیل سے دوستی کی دعوت اورفلسطینی قوم اور اس کے حقوق کو دانستہ طور نظرانداز کرنے کے مترادف قرار دیا ہے۔ ناقدین کا کہنا ہے کہ الشمرانی جیسے لوگ سائبر مکھیاں ہیں جو صہیونی ریاست کا دفاع اور فلسطینیوں کے حقوق کو دانستہ نظرانداز کرتی ہیں۔
خلاصہ یہ ہے کہ فلسطینی مظلوم ملت صرف کورنائے اسرائیل کاہی مقابلہ نہیں کر رہی بلکہ حالیہ دنوں کورونا وباء سمیت کورونائے عرب حکمرانوں کا مقابلہ بھی کر رہی ہے کہ جن کی طرف سے امریکہ اور اسرائیل سے زیادہ شدت کے ساتھ فلسطین کی شناخت کو ختم کرنے کے لئے پے در پے حملہ کئے جا رہے ہیں۔افسوس کی بات یہ ہے کہ عرب مسلمان حکمرانوں نے دین و دنیا دونوں کا ہی سودا کر ڈالا ہے۔ایک ایسے شیطان کی دوستی کی خاطر دنیا بھر میں ظلم و ستم کی حمایت کر رہے ہیں کہ جس کے نتیجہ میں ان عرب حکمرانوں کے ہاتھ نہ تو دنیا حاصل ہو گی اور نہ ہی آخرت حاصل ہونی ہے۔حکومت پاکستان سمیت دیگر غیور حکومتوں کو چاہئیے کہ عرب ممالک سے مطالبہ کریں کہ اس شیطانی ڈرامہ سیریل کو فی الفور بند کر دیا جائے اور اس پرپابندی عائد کی جائے۔حقیقت یہی ہے کہ فلسطین فلسطینیوں کا وطن ہے اور غاصب صہیونی سنہ1948کا ایک ایسا کورونا وائرس ہیں کہ جس نے ستر سال سے فلسطین کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے۔