(روزنامہ قدس ۔آن لائن خبر رساں ادارہ) پرنس آف ویلز چارلس نے فلسطینی عوام کے ساتھ جذبہ خیرسگالی کے ساتھ ہمدردی کا اظہار کرتے ہوئے مقبوضہ بیت المقدس کے مسلمان اور مسیحی رہنما ؤں سے ملاقات کی ، پرنس چارلس نے مقبوضہ بیت المقدس میں مقیم فلسطینیوں کو درپیش مشکلات کے بارے میں بات کرتے ہوئے کہا کہ وہ مستقبل میں انھیں "آزادی ، انصاف اور مساوات” تک آزادانہ رسائی کی امید کرتے ہیں۔
تفصیلات کے مطابق مقبوضہ فلسطین کے پہلے اور تاریخی دورے پر بیت المقدس پہنچنے والے پرنس آف ویلز چارلس کا استقبال مقبوضہ بیت المقدس کے مسلمان اور مسیحی سیاسی اور مذہبی رہنماؤں نے کیا، تیز بارش میں شہزادہ چارلس سخت سیکیورٹی حصار میں صحافیوں مسلمان اور مسیحی سیاسی و مذہبی پیشوا، اور شاہی وفد کے ارکان کے ہمراہ بیت لحم میں خلیفہ دوئم حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے نام سے منسوب مسجد عمر پہنچے یہ وہ مسجد ہے جب حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ نے 637 میں بیت المقدس کو فتح کیا تھا تو انھوں نے اس بات کی ضمانت دی تھی کہ مسیحیوں کو اپنی عبادات جاری رکھنے کی آزادی حاصل ہوگئی ، ان کی اس ضمانت کو وعدہ عمر کے نام سے تحریر کیا گیا تھا اور اس کی ایک نقل پرنس کو بھی دی گئی، بیت اللحم کے گورنر کامل حمید نے پرنس چارلس کو بتایا کہ کس طرح اس تاریخی قصبے میں دونوں مذاہب کے پیروکار پر امن بقائے باہمی کے تحت رہتے تھے۔
مسجد عمر کے دورے کے بعد پرنس چارلس نے چرج آف نیٹویٹی کا دورہ کیا ، یہ چرج جس جگہ تعمیر کیا گیا ہے، اس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ حضرت عیسیٰؑؑ کی جائے پیدائش ہے۔
شہزادہ چارلس نے برطانوی اور فلسطینی عوام کے درمیان تاریخی تعلق کو اجاگر کرنے کیلئے منعقدہ استقبالیہ تقریب سے خطا ب کرتے ہوئے کہا کہ "دنیا کے دیگر مقامات پر بھی ، میں نے مختلف مذاہب کے مابین پل بنانے کی کوشش کی ہے تاکہ ہم ایک دوسرے سے سبق حاصل کریں اور اس کے نتیجے میں مل کر مضبوط تر ہوسکیں۔
پرنس چارلس نے کہا کہ یہ بقائے باہمی کے تحت ساتھ رہنے کی ایک حیرت انگیز مثال ہے۔ اس کے بعد گورنر نے کہا کہ بیت اللحم کا مضبوط ترین پیغام یہ ہے کہ ہم فلسطینی، مسلمان اور مسیحی یہاں مل کر اکٹھے رہنے میں فخر محسوس کرتے ہیں۔ ہم پوری دنیا کو یہ پیغام بھیجتے ہیں کہ ارض مقدس میں ہم مسلمان اور مسیحی محبت کے ساتھ معمول کی زندگی گزار سکتے ہیں۔
عوام ایک ساتھ کام کرتے، سیکھتے، کھاتے اورسب کچھ ایک ساتھ کرتے ہیں۔ ہم امن کے ساتھ رہنا چاہتے ہیں۔ ہم ایک خود مختار جمہوری ریاست میں رہنا چاہتے ہیں، جس کا دارالحکومت بیت المقدس ہو۔
گورنر نے کہا کہ پرنس نے مسجد کی تفصیلات میں گہری دل چسپی کا اظہار کیا، انہوں نے غریب لوگوں کے بارے میں پوچھا کہ ہم کس طرح ان کی مدد کر سکتے ہیں۔ پرنس نے وزیٹرز با میں پہلے انگلش پھر عربی میں سائن کئے اور اس کے بعد وہ سکوائر عبور کرتے ہوئے چرچ آف نیٹیویٹی چلے گئے، ان کے ساتھ مسجد عمر کے امام چرچ کے مسیحی، فرانسسکنز، آرمینیائی اور یونانی آرتھوڈوکس بھی تھے۔