(روز نامہ قدس ۔آن لائن خبر رساں ادارہ)فلسطین کے مقبوضہ مغربی کنارے کے مختلف شہروں میں بسنے والے فلسطینیوں کو صہیونی ریاست کی طرف سے دہری پابندیوں اور معاشی رکاوٹوں کا سامنا ہے۔ انہیں غرب اردن میں روزگار کے مواقع فراہم نہیں کیے جا رہے۔
روزنامہ قدس کے مطابق، بے روزگاری سے تنگ فلسطینی نوجوان سنہ ۱۹۴۸ء کے علاقوں میں کام کاج کے لیے جانے کی کوشش کرتے ہیں۔ مگر ان کی یہ کوشش کوئی آسان کام نہیں۔ انہیں اس کی بھاری قیمت چکانا پڑتی ہے۔ اگر کوئی فلسطینی شہری بغیر اجازت کے سنہ ۱۹۴۸ء کے مقبوضہ علاقوں میں داخلے کے دوران گرفتار کیا جاتا ہے تو قید کے ساتھ بھاری جرمانہ اس کا مقدر ہوتی ہے۔ جہاں تک ورکنگ پرمٹ یعنی کام کاج کے لیے اجازت ناموں کاحصول ہے تو وہ بھی کسی مصیبت سے کم نہیں کیونکہ صہیونی حکام اور ان کے بلیک میلر ایجنٹ شہریوںکو بلیک میل کرنے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے۔
غرب اردن کے شہری علی ابو لبن کی مثال دی جاسکتی ہے جوسنہ ۱۹۴۸ء کے مقبوضہ علاقوں میں تعمیراتی شعبے میں کام کے لیے جاتا ہے مگر اسے ماہانہ ورکنگ پرمٹ کے عوض ۲۶۰۰ شیکل کی بھاری رقم ادا کرنا پڑتی ہے۔ وہ یہ رقم دینےکا پابند ہے چاہے وہ کام کرے یا نہ کرے۔
ابو لبن نے کہا کہ غرب اردن کے شہریوں کو کام کاج کی اجازت کے لیے ورکنگ پرمٹ لینا پڑتا ہے مگر یہ اتنا آسان نہیں۔ ورکنگ پرمٹ کے حصول میں فلسطینیوں کو طرح طرح کی مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
بدعنوانی کے نیٹ ورک
علی ابو لبن کا کہنا تھا کہ فلسطینیوں کو زراعت، تعمیرات یا دیگر شعبوں میں کام کاج کے حصول کے لیے ورکنگ پرمٹ ایجنٹوں کے توسط سے فراہم کیا جاتا ہے۔ ایجنٹ کرپشن مافیا کا نیٹ ورک ہے اور ہرایک حسب توفیق فلسطینیوں کی لوٹ مار کرتا ہے۔ ہر ایجنٹ کی شرائط الگ الگ ہوتی ہیں اور بعض اوقات ایجنٹ ورکنگ پرمٹ کے امیدوار سے اس کی اجرت کا نصف طلب کرتے ہیں۔
قانون دان محمد واکد نے بات کرتے ہوئے کہا کہ ورکنگ پرمٹ ایجنٹ کرپٹ عناصر کا مافیا ہے جو ایک طرف صہیونی انٹیلی جنس اداروں کے ساتھ رابطے میںہوتےہیں اور ان سے وہ پرمٹ حاصل کرتے ہیں اور دوسری طرف وہ فلسطینی مزدوروں کو بلیک میل کرکے ان کی کھال اتارنے سے بھی باز نہیں آتے۔
فلسطینی شہریوں کا کہنا ہے کہ فلسطینی مزدوروں کو کام کاج کے لیے اجازت نامے صہیونی ایوان صنعت وتجارت کی شرائط کے ساتھ مربوط ہوتے ہیں۔ اس میں بلنگ بروکر بھی ملوث ہوتے ہیں۔ بعض اوقات ان پلاٹ کی قیمت ۳۰ ہزار شیکل سے کم نہیں ہوتی۔
فلسطینی شہریوں کو ان بلنگ بروکرز کے ہاتھوں بھی قدم قدم پر بلیک میل ہونا پڑتا ہے۔