غزہ جہاں فضا آج بھی بارود کی بو اور چیخوں کی گونج سے بوجھل ہے، جہاں ہر گلی، ہر عمارت جنگی درندگی کی گواہی دے رہی ہے، وہیں زندگی کے چراغ دوبارہ روشن ہو رہے ہیں۔ عارضی جنگ بندی کے سناٹے میں ایک نئی صدا ابھری ہے اور سکول کی گھنٹیاں بجنے کی آوازیں سنائی دی جانے لگی ہیں۔
دو برس سے زیادہ عرصہ تک جنگ کے شعلوں اور نقل مکانی کے دکھ میں الجھے غزہ کے بچے اب ملبے کے بیچ سے علم کا سفر دوبارہ شروع کر رہے ہیں۔ ہاتھوں میں پھٹی پرانی کاپیاں، چہروں پر گرد و غبار اور آنکھوں میں خوابوں کی روشنی۔ یہ ہیں وہ بچے جو دنیا کو بتا رہے ہیں کہ فلسطینی کبھی شکست نہیں کھاتے۔
امید کے خیموں میں علم کی شمع
فلسطینی پناہ گزینوں کی بہبود اور بحالی کی ایجنسی ’انروا‘ کے زیر انتظام دیرالبلح بنیادی مشترکہ سکول جو کل تک پناہ گزینوں کے لیے پناہ گاہ تھا، آج پھر علم کی روشنی بکھیرنے لگا ہے۔ خیموں کے پہلو میں قائم عارضی کلاسیں، جنگ کے زخموں سے چور دیواریں اور ٹوٹی کرسیاں یہ سب ایک شہر کی کہانی سناتے ہیں جو اجڑ کر بھی جینا نہیں بھولا۔
سکول کے صحن میں برتنوں اور کمبلوں کے درمیان بچوں کی کھلکھلاہٹ گونجتی ہے۔ ایک بچی بستہ سنبھالتی ہے، دوسری ملبے پر بیٹھ کر حروفِ تہجی دہراتی ہے۔ غزہ کے ان ننھے معماروں نے مایوسی کی مٹی سے اُمید کا قلعہ تعمیر کر لیا ہے۔
ہم اپنی زندگی واپس چاہتے ہیں
لمیٰ ابو العطا ننھی مگر باحوصلہ، کندھے پر بستہ ڈالے کہتی ہے: ہم اپنی زندگی واپس چاہتے ہیں۔ ہمیں صرف کتابیں اور قلم چاہییں۔
مایار ابو سعدہ اس کے ساتھ کھڑی ہے، اس کی آنکھوں میں بچپن لوٹ آنے کی خواہش جھلک رہی ہے۔ "ہم سب مضامین پڑھنا چاہتے ہیں جیسے پہلے پڑھتے تھے۔ ہم سیکھنا چاہتے ہیں اور کھیلنا بھی۔ ہم وہ نسل ہیں جو علم سے اپنا مستقبل تعمیر کرے گی”۔
ویرانی کے بیچ زندگی کی ضد
سکول کی دیواریں اب بھی شیلنگ کے نشانات سے زخمی ہیں، کرسیاں ٹوٹی ہیں، تختے چاک سے بھرے مگر دل خالی نہیں۔ معلمہ حنین کراز کہتی ہیں کہ "یہ واپسی آسان نہیں، مگر لازم ہے۔ قابض اسرائیل نے ہمارے تعلیمی نظام کو دو سال تک ملبے میں دفن کرنے کی کوشش کی، مگر تعلیم ہی ہمارا سب سے بڑا سرمایہ ہے”۔
وہ کہتی ہیں کہ طلبہ کو کرسیاں میسر ہیں نہ قرطاس، مگر ان کی عزم و جستجو ہر رکاوٹ سے بلند ہے۔ فلسطینی قوم نے دنیا کو دکھا دیا ہے کہ بمباری کے ملبے تلے بھی علم کی شمع بجھتی نہیں۔
تعلیم، زندگی اور وقار کا حق
’انروا‘ کی ترجمان ایناس حمدان کے مطابق اگست سنہ 2024ء سے اب تک 62 ہزار سے زائد طلبہ نے عارضی تعلیم کے پروگراموں سے استفادہ کیا ہے جبکہ تین لاکھ کے قریب طلبہ آن لائن تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔
وہ کہتی ہیں کہ "غزہ کے بچوں کو علم، وقار اور زندگی کا حق ہے۔ ملبہ، محاصرہ یا قحط انسانی حق کو ختم نہیں کر سکتے”۔
اعداد میں چھپی تباہی
وزارتِ تعلیم کی رپورٹ غزہ کی تباہی کی گواہ ہے۔ قابض اسرائیل نے 179 سرکاری سکول مکمل طور پر مٹا دیے، 118 کو شدید نقصان پہنچایا۔ 100 سے زائد انروا سکولز تباہ یا جزوی طور پر متاثر ہوئے اور 63 یونیورسٹی عمارتیں زمین بوس کر دی گئیں۔
اس سفاکیت میں 18 ہزار 69 طلبہ شہید اور 26 ہزار 391 زخمی ہوئے۔ 1 ہزار 319 جامعاتی طلبہ اور 1 ہزار 16 اساتذہ بھی شہید ہوئے۔ سنہ 2023ء سے جاری اس نسل کشی نے 6 لاکھ 30 ہزار طلبہ کو تعلیم سے محروم کر دیا ہے۔
لیکن وزارتِ تعلیم نے ہار نہیں مانی۔ اس نے آن لائن امتحانات منعقد کیے، ورچوئل سکول قائم کیے، تاکہ غزہ کے بچوں کے خواب ادھورے نہ رہ جائیں۔
خاک سے جنم لیتی زندگی
غزہ کی گلیوں میں جہاں کبھی بمباری کی گونج تھی، اب بچوں کے قہقہے ہیں۔ ایک بچی اپنے بال درست کر رہی ہے، دوسری خالی کاپی کو سینے سے لگائے کھڑی ہے جیسے مستقبل اس کے ہاتھوں میں لکھا جانے والا ہو۔
غزہ کے بچے آج دنیا سے کہہ رہے ہیں "ہمیں مٹایا جا سکتا ہے، مگر جھکایا نہیں جا سکتا۔ ہم زندہ رہیں گے، پڑھیں گے اور اپنے وطن کو آزاد کریں گے”۔
یہ ہیں وہ ننھے سپاہی جو بندوق نہیں، کتاب کو اپنا ہتھیار بنائے ہوئے ہیں۔