غزہ ۔ روزنامہ قدس ـ آنلائن خبر رساں ادارہ
قابض اسرائیل کے بدنام زمانہ عقوبت خانے ’سدی تیمان‘ میں رات کبھی بھی عام رات کی طرح نہیں تھی۔ وہاں، روشنی کبھی بجھائی نہیں جاتی اور نیند آنکھوں تک نہیں پہنچ پاتی۔ اسی سرد کونے میں ایک فرش پر جو بمشکل جسم کو زمین کے سختی سے بچا پاتا تھا، فلسطینی صحافی احمد عبد العال نے کئی مہینے گزارے، جہاں وقت کا اندازہ صرف اسیران کے کراہنے اور فوجیوں کی آواز سے لگایا جاتا تھا۔
اس کے ارد گرد ہر چیز درد سے بھری خاموشی تھی اور چہرے اتنے بدلے ہوئے کہ قید کی شدت نے ان کی اصل پہچان چھین لی تھی۔ احمد کہتے ہیں کہ سردی ہڈیوں میں اتر گئی تھی اور پابندیاں جسم کا حصہ بن گئی تھیں، جو ہفتے میں دو بار صرف چار منٹ کے لیے کھولتی جاتی تھیں، یہ چار منٹ ہی تھے جو جسم کے سخت اور جمی ہوئے اعضا کو حرکت دینے کی اجازت دیتے تھے۔
احمد یاد کرتے ہیں "کوئی بھی حرکت، کوئی بھی نظر، کافی تھی کہ آپ پر مکے برس جائیں یا آنکھوں میں جلن پیدا کرنے والی گیس ڈالی جائے۔” احمد 13 اکتوبر سنہ 2025 کو طوفان الاقصی کی ڈیل کے تحت قید سے باہر آئے، ایک سال اور نصف قید کے بعد جو مارچ سنہ 2024 میں الشفاء ہسپتال کے کمپلیکس سے شروع ہوئی تھی۔
ڈسکو روم: بلند آواز میں تشدد
تفتیش کے مرحلے میں، احمد کو وہ “ڈسکو روم” دکھایا گیا، جسے فوجی ایک علیحدہ کمرہ کہتے ہیں۔یہ کمرہ ہنگامی اور بلند آواز میں عبرانی گانوں سے بھرا ہوتا تھا، بغیر کسی وقفے کے وہاں پر بے ہودہ گانے کانوں کے پردے پھاڑنے والی دھاڑوں کے ساتھ بجتے رہتے تھے۔
مقصد تفریح نہیں بلکہ نیند سے محروم کرنا تھا۔ پانچ راتیں مسلسل احمد ایک دھات کی کرسی سے جکڑا ہوا بیٹھا رہا۔ ہر بار نیند چھانے پر اسے بجلی کے جھٹکے کی تکلیف دی جاتی تھی۔
احمد مرکزاطلاعات فلسطین کے نامہ نگار سے کہتے ہیں کہ “میں نے ایسے لوگوں کو دیکھا جو چیختے چیختے بے ہوش ہو گئے اور ایسے جو اپنے آپ سے بات کرتے رہے کیونکہ وہ رات اور دن میں فرق نہیں کر پا رہے تھے۔ میں صبح کے انتظار میں تھا، لیکن صبح کبھی نہیں آئی”۔
وہ مناظر جو کبھی نہیں مٹتے
احمد کی تکلیف اکیلی نہیں تھی۔ ان کی آنکھوں نے ایک بزرگ آدمی کے عذاب کو محفوظ کیا، جسے بغیر کسی ثبوت کے موت تک تشدد دیا گیا، پھر اسے ایک سیاہ تھیلے میں ڈال دیا گیا، جیسے وہ اسیران کی فہرست میں محض ایک اضافی نمبر ہو۔
احمد اپنے ساتھی محمد ادریس کی کہانی یاد کرتے ہیں جو خون بہتے بہتے مر گیا، جبکہ ایک فوجی ہنس رہا تھا اور ایک نرس سرگوشی کر تے ہوئے کہہ رہی تھی “اسے مرنے دو”۔
احمد کم آواز میں کہتے ہیں “وہاں موت اختتام نہیں، بلکہ ایک ایسی غیر موجودگی ہے جو صرف ذلت سے نجات دیتی ہے”۔
امید، مزاحمت کا عمل
اس سب کے باوجود امید بجھ نہیں پائی۔ تنہائی کی دیواروں کے درمیان اسیران کہانیاں سناتے اور روشنی کی چھید سے باہر کی زندگی کی جھلک دیکھتے۔
مرہم کے پیکٹوں سے انہوں نے دیواروں کو لکھائی کے تختے میں بدل دیا، قرآن کی آیات لکھیں، حفظ کیں اور دوبارہ مٹا کر دوبارہ لکھیں۔ یادداشت ان کا واحد ہتھیار اور ایمان ان کا ذریعہ بقا تھا۔
دنیا سے محرومی
احمد کی قید کے دوران اسے وکیل سے ملاقات کی اجازت نہیں دی گئی، نہ ہی یہ جاننے دی گئی کہ کیا اس کا خاندان اب بھی امید کی زندگی گزار رہا ہے۔
احمد کہتے ہیں کہ “سب سے زیادہ دکھ صرف جسمانی درد نہیں، بلکہ ہر پیارے سے دوری ہے، اس کا نام بھی نہیں جاننا، یہاں تک کہ اپنے آپ کو بھی”۔
اسیران کو مجبور کیا جاتا تھا کہ وہ ایک دوسرے کو گالیاں دیں، جسم سے پہلے عزت کو توڑیں۔ احمد کہتے ہیں “وہ چاہتے تھے کہ ہم بھول جائیں کہ ہم انسان ہیں”۔
جب آزادی کا دروازہ کھلا، احمد ایک جسم کے ساتھ باہر آئے جو پابندیوں سے نڈھال ہو چکا تھا اور ایک چہرہ جو اتنا بدل گیا تھا کہ اس کا بیٹا پہچان نہ سکا۔
لیکن احمد دل میں اپنے ساتھیوں کے لیے وصیت لے کر آئے “ان کے بارے میں بات کریں، انہیں تنہا نہ چھوڑیں جب آزادی ان کی دیواروں کے قریب ہو”۔
احمد نے اختتام میں کہاکہ “وہاں نو ہزار سے زیادہ اسیر ہیں، ہر ایک اپنے چہرے، خواب اور خاندان کے ساتھ جو انتظار کر رہا ہے لیکن قابض اسرائیل ان کو صرف نمبر سمجھتا ہے۔ ہم نمبر نہیں، ہم کہانیاں ہیں جو ابھی ختم نہیں ہوئیں”۔