استنبول ۔ روزنامہ قدس ـ آنلائن خبر رساں ادارہ
ترکیہ کے شہر استنبول میں جمعہ کے روز ’’ غزہ میں نسل کشی اور جبری بے دخلی کے مقابل فلسطینی مؤقف کی وحدت‘‘ کے عنوان سے فلسطینیوں کی بیرونِ ملک عوامی کانفرنس کے زیر اہتمام فلسطینی قومی مکالمہ کے تیسرے اجلاس کی سرگرمیوں کا آغاز ہوا، جس میں فلسطینی شخصیات کے علاوہ اندرونِ فلسطین اور بیرونِ ملک سے 28 ممالک کے ماہرین، دانشور اور ابلاغی شخصیات نے وسیع پیمانے پر شرکت کی۔
مکالمے کے مختلف سیشنوں میں فلسطینی سیاسی نظام کے بحران، فلسطینیوں کی بیرونِ ملک موجود آبادی کے فیصلہ سازی میں کردار، غزہ کی مستقبل کی نگرانی و انتظام، داخلی اختلافات پر قابو پانے کے طریقوں، فلسطینی اداروں کی ازسرِنو تنظیم اور وحدتِ قومی کی حمایت میں میڈیا اور سول سوسائٹی کے کردار جیسے موضوعات شامل ہیں۔
افتتاحی اجلاس میں بیرونِ ملک فلسطینیوں کی عوامی کانفرنس کے صدر منیر شفیق نے اس امر پر زور دیا کہ فلسطینی قوم کو درپیش سنگین چیلنجوں سے نمٹنا ناگزیر ہے کیونکہ انہی چیلنجوں پر ارضِ فلسطین کی آزادی کے لیے جاری تاریخی جدوجہد کا مستقبل وابستہ ہے۔
شفیق نے جن اہم چیلنجوں کی نشاندہی کی ان میں سے ایک غزہ میں جنگ سے ’’نیم جنگ‘‘ کی کیفیت میں دھکیلنے کی کوشش اور بنجمن نیتن یاھو کی جانب سے ٹرمپ پلان کے ذریعے اپنے مذموم منصوبوں کو آگے بڑھانے کی سعی ہے۔
انہوں نے اس بات پر بھی زور دیا کہ فلسطینی مزاحمت کی بھرپور پشت پناہی اور اس کا ہر سطح پر دفاع ضروری ہے تاکہ ان تمام سازشوں کو ناکام بنایا جا سکے جو اس مزاحمت کو توڑنے کے لیے کی جا رہی ہیں۔
کانفرنس کے صدر نے واضح کیا کہ فلسطینی قضیے کو صفحۂ ہستی سے مٹانے کی سازشوں کو روکنے کا واحد راستہ فلسطینی صفوں میں اتحاد ہے۔
اپنے خطاب میں بیرونِ ملک فلسطینیوں کی عوامی کانفرنس کے قائم مقام سیکرٹری جنرل ہشام ابو محفوظ نے فلسطینی قوم کو درپیش جبری نقل مکانی کے منصوبوں کا مقابلہ کرنے، غزہ پر کسی بین الاقوامی وصایت کے نفاذ کی کوششوں کو ناکام بنانے اور فلسطینی قضیے کی صفائی کی تمام کوششوں کے خلاف مضبوطی سے کھڑا ہونے کی ضرورت پر زور دیا۔
ابو محفوظ نے کہا کہ ’’ہم جو کچھ دیکھ رہے ہیں وہ فلسطینی مزاحمت کو خاموش کرنے اور اسے ناکام بنانے کی کھلی کوششیں ہیں، جن کا توڑ صرف اس کی کمک اور اس کے تسلسل پر اصرار سے ممکن ہے۔‘‘
انہوں نے یہ بھی کہا کہ فلسطینی شخصیات ایک ایسے متحد لائحۂ عمل پر پہنچنے کے لیے اکٹھی ہو رہی ہیں جس کا مطالبہ یہ ہو کہ قومی فیصلوں میں عوامی شمولیت کو یقینی بنایا جائے۔
اسی تناظر میں فلسطینی قومی اقدام کے سیکرٹری جنرل ڈاکٹر مصطفی البرغوثی نے کہا کہ ’’ہم اس وقت بقا کی جنگ اور اپنے حقوق کے دفاع کی جنگ لڑ رہے ہیں۔ یہ جنگ ہر اس اختلاف کے خاتمے کا تقاضا کرتی ہے اور ہمیں ایک متحد قیادت کے تحت یکجا ہونے کی ضرورت ہے۔‘‘
البرغوثی نے اس امر پر زور دیا کہ تمام داخلی اختلافات کو ختم کر کے عوامی مفادات کے حصول، فلسطینی قوم کے حقِ خود ارادیت اور ایک ایسی قومی جمہوریت کی تعمیر کے لیے مل کر جدوجہد کرنا لازم ہے جو فلسطینی جدوجہد کے تمام سرچشموں کی حفاظت کرے۔
انہوں نے افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ دنیا مظلوم سے اس کا دفاعی ہتھیار چھیننے کا مطالبہ تو کرتی ہے لیکن مجرم نازی قوت سے اس کے ہتھیار چھیننے کی بات نہیں کرتی۔
انہوں نے واضح کیا کہ غزہ کا انتظام صرف غزہ کے عوام اور مجموعی طور پر فلسطینی قوم کے ہاتھ میں ہی ہونا چاہیے۔
مکالمے کی سرگرمیاں دو روز تک جاری رہیں گی اور یہ اجلاس ایسے نعرے کے تحت آگے بڑھے گا جس کا مقصد فلسطینی قومی وحدت کو تقویت دینا اور موجودہ چیلنجوں کے بیچ فلسطینی قضیے کی حمایت کو مضبوط کرنا ہے۔