غزہ ۔ روزنامہ قدس ـ آنلائن خبر رساں ادارہ
غزہ مرکز برائے انسانی حقوق نے اس انتہائی خطرناک اطلاعات پر گہری تشویش ظاہر کی ہے جن کے مطابق امریکہ ایک ایسا منصوبہ بنا رہا ہے جس کے تحت فلسطینیوں کے لیے رہائشی بستیوں کی تعمیر قابض اسرائیل کے زیر قبضہ غزہ کے علاقوں میں کی جائے گی۔ یہ منصوبہ ایک ایسے سول ملٹری کوآرڈی نیشن روم کے تحت چلایا جائے گا جس کی قیادت امریکی فوج کے ہاتھ میں ہوگی۔
مرکز نے ہفتے کے روز جاری اپنے بیان میں خبردار کیا کہ اخبار وال اسٹریٹ جرنل کی جانب سے سامنے لائی گئی یہ معلومات امریکی اور صہیونی منصوبے کی عکاس ہیں جو فلسطینیوں کی تعمیر نو اور ان کے بنیادی حقوق کو سیاسی اور سکیورٹی شرائط سے باندھنے کی کوشش ہے۔ یہ طرزعمل بین الاقوامی انسانی قانون کی صریح خلاف ورزی ہے جو قابض قوت کو پابند کرتا ہے کہ وہ شہری آبادی کے حقوق کو کسی شرط یا دباؤ کے بغیر یقینی بنائے۔
مرکز نے واضح کیا کہ یہ منصوبہ غزہ کے شہریوں کو ایک مشترکہ ملٹری انتظام میں دھکیلنے کی راہ ہموار کرتا ہے جو انہیں زبردستی دیموگرافک طور پر ازسرنو تقسیم کرے گا۔ اس طرح شہریوں کے مناسب رہائش، آزادانہ نقل و حرکت اور اپنی قدرتی زمین پر محفوظ زندگی کے بنیادی حق کو پامال کیا جا رہا ہے۔ اس منصوبے کے ذریعے اراضی کی ملکیت سے متعلق انفرادی اور اجتماعی حقوق پر بھی سنگین حملہ کیا جا رہا ہے۔
حقوقی مرکز نے خبردار کیا کہ یہ منصوبہ بظاہر ملبہ ہٹانے اور انجینئرنگ کے عنوان سے شروع ہوتا ہے مگر حقیقت میں یہ ایک ایسی سماجی انجینئرنگ ہے جس کے ذریعے فلسطینیوں کی رائے اور شرکت کے بغیر زمین پر نئے حقائق مسلط کیے جائیں گے تاکہ غزہ کے سماجی و جغرافیائی ڈھانچے کو تبدیل کر دیا جائے۔
مرکز نے زور دیا کہ یہ سوچ شہریوں کو سیاسی تجربات کی گنی پگ سمجھتی ہے اور تعمیر نو کے اس عالمی اصول کو روندتی ہے جس کے مطابق تباہ شدہ علاقوں کی بحالی وہاں کے عوام کی ضروریات اور حقوق کی بنیاد پر ہونی چاہیے نہ کہ بیرونی ایجنڈوں کے تحت۔
مرکز نے کہا کہ اس امریکی اسرائیلی منصوبے میں فوجی و انجینئرنگ ٹیموں کی شمولیت اس حقیقت کو نظر انداز کرتی ہے کہ غزہ میں قتل عام اور تباہی کے بعد سب سے پہلی ترجیح شہریوں کا تحفظ اور ان کے بنیادی حقوق کی بحالی ہونی چاہیے مگر اس کے برعکس انہیں مزید کنٹرول، نگرانی اور بے دخلی کی پالیسیوں کا سامنا کرایا جا رہا ہے۔
مرکز نے توجہ دلائی کہ انسانی حقوق کے تمام ضوابط کی کھلی خلاف ورزیوں کے تسلسل میں اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے پیر کے روز 17 نومبر سنہ 2025 کو قرارداد 2803 منظور کی جس نے فلسطینی سرزمین پر قبضے کو مضبوط کرنے اور فلسطینیوں کے حق خود ارادیت کو نقصان پہنچانے میں براہ راست کردار ادا کیا۔
مرکز نے مزید کہا کہ یہ قرارداد انسانی امداد کو دباؤ اور کنٹرول کا ہتھیار بنا دینے والی نئی انتظامی اتھارٹی یعنی نام نہاد کونسل آف پیس اینڈ انٹرنیشنل فورس کے ہاتھ میں دے دیتی ہے جو قابض اسرائیلی حکومت کے ساتھ ہم آہنگ ہوگی۔ ان اقدامات میں وہ ادارے بھی شامل ہیں جو غزہ میں نسل کشی جیسے جرائم میں شریک رہے ہیں جیسے گلوبل ہیومینیٹیرین فاؤنڈیشن GHF اور وہ مسلح گروہ جنہیں قابض اسرائیلی فوج نے تشکیل دیا ہے۔
حقوقی مرکز نے عالمی برادری سے مطالبہ کیا کہ وہ بین الاقوامی انسانی قانون کی پابندی کرے جس کے مطابق آبادی پر کسی بھی قسم کے جبری انتظامات، جبری نقل مکانی یا ان کی زندگی کے فیصلوں پر قابو پانا سختی سے ممنوع ہے۔
مرکز نے اس بات پر زور دیا کہ تعمیر نو کا کوئی بھی عمل، شہری منصوبہ بندی یا انجینئرنگ کا کوئی بھی مداخلتی منصوبہ فلسطینی عوام کی ناقابل تنسیخ حقوق اور ان کی حقیقی ضروریات کی بنیاد پر تشکیل دیا جائے اور اس میں مقامی اداروں اور سماجی تنظیموں کی شرکت کو یقینی بنایا جائے۔ سیاسی یا سکیورٹی شرائط کو بنیاد بنانا ناقابل قبول ہے۔
مرکز نے خبردار کیا کہ تعمیر نو کے پورے عمل کو غیر ملکی ٹھیکیداروں اور بین الاقوامی اداروں کے سپرد کرنا فلسطینیوں کو مکمل طور پر حاشیے پر دھکیل دیتا ہے اور انہیں اپنی ہی زمین کی تعمیر نو سے بے دخل کر دیتا ہے۔ یہ منصوبے فلسطینیوں کی ترجیحات، حقوق اور اجتماعی مستقبل کو نظر انداز کرتے ہیں۔
آخر میں مرکز نے متنبہ کیا کہ غزہ پر کسی نئی غیر ملکی قبضے کے قیام کی کوششیں مبہم اور لا متعین معیارات کے ذریعے فلسطین اور اس کے عوام کی وحدت کو مزید منتشر کریں گی اور غزہ کی جغرافیائی تنہائی کو مزید گہرا کر دیں گی۔
مرکز نے عالمی برادری سے مطالبہ کیا کہ وہ انسانی المیے کو سیاسی دباؤ کے ہتھیار کے طور پر استعمال کرنے کی ان کوششوں کو روکے اور فلسطینی عوام کے بنیادی حقوق کے دفاع میں واضح اور مضبوط موقف اپنائے۔