(روز نامہ قدس ۔آنلائن خبر رساں ادارہ ) صیہونی جیلوں میں قید 45خواتین میں سماجی کارکنان سمیت صحافی اور معلمات بھی شامل ہیں جبکہ 26 ایسی خواتین ہیں جوبغیر کسی جرم کے اسرائیل کی انتظامی حراست کی غیرقانونی پالیسی کے تحت قیدہیں۔
دنیا بھر میں خواتین کے عالمی دن کےموقع پر مقبوضہ فلسطین میں اسیران کلب کی جانب سے جاری کردہ رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ صیہونی ریاستی دہشتگردی میں فلسطینیوں کے ساتھ بغیر کسی تخصیص کے مظالم جاری ہیں، صیہونی فوجیوں نے جہاں ہزاروں فلسطینی باشندوں کو شہید کیا ہے ان میں بچوں سمیت خواتین کی بھی بڑی تعداد شامل ہیں جبکہ فلسطینی خواتین کی بڑی تعداد ہے جو صیہونی زندانوں میں اپنی زندگیوں کے قیمتی سال گزار رہی ہیں۔
رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ صیہونی ریاست کی مختلف جیلوں میں اس وقت 45 خواتین پابند سلاسل ہیں جن میں سماجی، سیاسی ، اور انسانی کارکنان سمیت معلمات، خواتین صحافیوں سمیت طالبات بھی شامل ہیں جبکہ ان 35 خواتین میں 26 ایسی ہیں جو صیہونی ریاست کی انتظامی حراست کی غیر قانونی پالیسی کے تحت بغیر کسی جرم کے قیدہیں۔
رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ مقبوضہ بیت المقدس سے تعلق رکھنے والے حماس کے رہنما جمال الطویل کی صاحبزادی 22 سالہ بشریٰ الطویل جو پیشے کے اعتبار سے صحافی ہیں وہ گزشتہ 8ماہ سے صیہونی ریاستی کی غیر قانونی حراستی پالیسی کے تحت قید ہیں، غرب اردن کے جنوبی شہر بیت ا لحم کی رہائشی 25 سالہ شروق البدن 15 جولائی 2019ء سے بغیر کسی جرم کے انتظامی حراست کی غرہ قانونی پالیتی کے تحت قید ہیں، مقبوضہ بیت المقدس کی رہائشی 23 آلاء البشير24 جولائی 2019 سے قید ہیں۔
رام اللہ کی رہائشی 20 سالہ شذیٰ حسن کو 12 دسمبر 2019 کو ان کے گھر سے حراست میں لیا گیا تھا تاہم انھیں دو ماہ بعد رہاکردیا گیا تھا لیکن اس کے بعد ایک بار پھر انتظامی حراست کے تحت قید کردیا گیا۔
رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ صیہونی جیلو ں میں آٹھ خواتین قید ہیں جو سنجیدہ نوعیت کی بیماریوں کا شکار ہیں اور بعض صہیونی عقوبت خانوں میں ہونےوالے تشدد سے زخمی ہیں جنہں صہیو نی ریاست کی جانب سے علاج معالجہ کی سہولیات فراہم نہیں کی جارہی ہیں، ان خواتن میں مقبوضہ بیت المقدس کے شہر بیت الحم کی رہائشی عمل تقاطقہ بھی شامل ہیں جو گذشتہ سات سالوں سے صہیونی زندان میں قید ہیں۔
قابض صیہونی ریاست نے 1967سےاب تک کم سے کم 16،000 سے زیادہ خواتین کو گرفتار کرکے صیہونی عقوبت خانوں میں قید کیا، ان خواتین قیدیوں میں پہلی فاطمہ برنوی تھی، جنہیں عمر قد کی سزا سنائی گئی تھی لیکن دس سال بعد رہا کردیا گیا تھا۔