(روزنامہ قدس ۔آن لائن خبر رساں ادارہ ) امریکی صدر ٹرمپ اور اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہوکے درمیان ہونے والی ڈیل آف دی سنچری پر یکم جولائی سے عملدرآمد شروع کردیا جائے گا اس بات کا اعلان اسرئیل کی جانب سے کر دیا گیا ہے۔ ڈیل آف دی سنچری کا مطلب فلسطین پر اسرئیل کا مکمل قبضہ ہے۔ دو ریاستی منصوبے کے تحت نیتن یاہو 1967ء کے مقبوضہ علاقوں میں بین الاقوامی قانون کی خلاف ورزی کرتے ہوئے بنائی گئی یہودی بستیوں کو تسلیم کروالے گا۔
فلسطین کے مزید علاقے ہتھیا لیے جائیں گے۔ فلسطین کو ’خود مختاری‘ کے نام پر دی جانے والی ریاست کے بدلے فلسطینیوں کو مکمل طور سے نہتا کردیا جائے گا۔ حتی کہ ان کے زیر انتظام علاقوں کی فضائی حدود پر بھی فلسطینیوں کو کوئی اختیار نہیں ہوگا۔ فلسطینی حکومت فضائیہ قائم نہیں کرسکے گی اور بیت المقدس سے دست بردار ہوجائے گی۔ یہ ایک ایسا منصوبہ جس میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اسرائیل نواز منصوبے کا نام دیا جارہا ہے۔ لیکن ٹرمپ اسے اس صدی کا سب سے بڑا منصوبہ قرار دیتے ہوئے دعویٰ کر تے رہے ہیں کہ فلسطینیوں کو علٰیحدہ ریاست حاصل کرنے کا اس سے بہتر موقع نہیں ملے گا۔
ہم نے اپنے 19جون کے کالم ’’اسرئیل کسی طور منظور نہیں‘‘ میں لکھا تھا کہ وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے منگل 15جون کو قومی اسمبلی سے اپنے خطاب میں کہا ہے کہ اسرائیل کو تسلیم کرنے کی باتوں میں کوئی حقیقت نہیں۔ مسئلہ فلسطین کا دو ریاستی حل چاہتے ہیں اور ہمارا موقف ہے کہ مقبوضہ بیت المقدس فلسطین کا دارالحکومت ہو۔ اس کے علاوہ وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے قومی اسمبلی میں چونکا دینے والی بات یہ کہی کہ پاکستان کا مسئلہ فلسطین پر موقف یہ ہے کہ 1967ء سے قبل والے فلسطین کی سرحد کو برقرار رکھا کیا جائے، اس کا مطلب یہ ہے کہ موجودہ حکومت اسرئیل کو دو ریاستی نظریے کی حمایت کرتی ہے ایک فلسطین اور دوسرا سرائیل۔
وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی یہ پاکستان کا موقف نہیں، اس کے برعکس امریکی صدر ٹرپ کے نظریہ ڈیل آف دی سنچری کو پاکستانی موقف ثابت کرنے کی کوشش ہے، کہا جارہا ہے کہ حکومت پاکستان اسرئیل کو دو ریاستی نظریے کی حمایت کرتی ہے ایک فلسطین اور دوسرا اسرائیل ہے۔ دو ریاستی اصول نافذ کر نے کے لیے امریکی صدر ٹرمپ نے 2017ء میں اپنے داماد اور مشیر جیرڈ کشنر کی معاونت سے نیا امن منصوبہ تیار کیا ہے جسے پیش کرتے ہوئے انہوں نے اسے ’ڈیل آف دی سنچری‘ قرار دیا، فلسطینی صدر محمود عباس نے ’’ڈیل آف دی سنچری‘‘ کو مسترد کرتے ہوئے اسے ’صدی کا تھپڑ‘ قرار دیا اور کہا کہ اس منصوبے کی جگہ تاریخ کے کوڑے دان میں ہوگی۔ ڈونلڈ ٹرمپ نے اقتدار سنبھالنے کے بعد سے بڑھ چڑھ کر اسرائیل نوازی کا مظاہرہ کیا ہے۔ پوری دنیا کے اعتراض اور فلسطینیوں کے زبردست احتجاج کے باوجود امریکا نے 2017 میں اپنا سفارت خانہ بیت المقدس منتقل کردیا۔ اس طرح امریکا نے اس فلسطینی موقف کو مسترد کیا کہ اسرائیل کے ساتھ کسی بھی امن معاہدے کی صورت میں بیت المقدس فلسطینی ریاست کا دارالحکومت ہوگا۔
وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے 1967ء سے پہلے کے اسرئیل کا ذکر کیا اس وقت صورتحال کیا تھی اس پر نظر ڈالتے ہیں۔ 1967ء میں چھ روزہ جنگ کے اختتام پر اسرائیل نے فلسطین کے مغربی کنارے اور مشرقی یروشلم، غزہ پٹی اور گولان کی پہاڑیوں پر بھی قبضہ کر لیا تھا۔ اس کے علاوہ اسرائیل نے جزیرہ نما سینائی پر بھی قبضہ کر لیا تھا لیکن 1979 کو مصر کے ساتھ ہونے والے امن معاہدے کے تحت مصر کے حوالے کر دیا۔ 1982 سے 2000 تک اسرائیل نے جنوبی لبنان کا کچھ حصہ اپنے قبضے میں لے لیا ہے جسے پہلے سکیورٹی زون کہا جاتا تھا۔
یہ ایسا عجیب و غریب منصوبہ ہے جسے ایک فریق کو نظرانداز کرکے دوسرے اور بالادست فریق کی مرضی و منشا سے تیار کیا گیا ہے۔ بے وطن فلسطینیوں سے کہا جارہا ہے کہ انہیں ’خود مختار ریاست‘ دی جاسکتی ہے لیکن انہیں چند شرائط ماننا ہوں گی۔ وہ شرائط دراصل فلسطینیوں کی طرف سے اسرائیل کی غلامی قبول کرنے کا عہد نامہ ہوگا۔ اسی لیے فلسطینی لیڈروں نے فوری طور سے اس منصوبے کو مسترد کیا ہے اور دنیا بھر کے دارالحکومتوں میں اس بات پر حیرت کا اظہار کیا جارہا ہے کہ کسی مسئلہ کو حل کرنے کے لیے ایک فریق کو پرے دھکیل کر کوئی معاہدہ کیسے مسلط کیا جاسکتا ہے۔ اس منصوبے کو ٹرمپ اپنے مخصوص انداز میں دونوں فریقوں کے لیے کامیابی قرار دے رہے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ’اس منصوبے سے فلسطینیوں کو وطن مل جائے گا اور اسرائیل کو سلامتی کی ضمانت فراہم ہوجائے گی‘۔ حقیقی صورت حال یہ ہے کہ فلسطینیوں سے کہا جارہا ہے کہ وہ اپنی آزادی اور علاقوں کو اسرائیل کے پاس گروی رکھ دیں۔ اس کے بدلے میں فلسطین کو کاغذی ریاست کے طور قبول کرلیا جائے گا۔ اور عرب ملکوں سے 50 ارب ڈالر لے کر انہیں سہولتیں فراہم کی جائیں گی اور فلسطینی پناہ گزینوں کو آباد کیا جائے گا۔
فلسطینیوں کے علاوہ ترکی اور ایران نے جس طرح اس معاہدے کو مسترد کیا ہے، اس سے یہ اندازہ کرنا مشکل نہیں ہونا چاہیے کہ اس منصوبہ کو فلسطینیوں سے زیادہ صدر ٹرمپ اور اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو کی سیاسی مشکلات حل کرنے کے ہتھکنڈے کے طور پر استعمال کیا گیا ہے۔ منصوبے کے لیے متحدہ عرب امارات، مصر اور سعودی عرب کی درپردہ حمایت اور مذاکرات کے ذریعے فلسطین کا مسئلہ حل کرنے کی خواہش کا اظہار بھی یہ واضح کرتا ہے کہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا یہ منصوبہ دراصل ایک ایسا امریکی ایجنڈا ہے جس کے لیے اسے مشرق وسطیٰ میں اپنے حامی ملکوں کی مکمل اعانت حاصل ہے۔ اس پہلو سے دیکھا جائے تو یہ نام نہاد دو ریاستی منصوبے فلسطین کا مسئلہ تو شاید حل نہ کروا پائے لیکن مشرق وسطیٰ میں نئی تقسیم، انتشار اور تصادم کا سبب ضرور بنے گا اور اب ایسا ہی ہو رہا ہے۔ اس سے متعدد عرب ممالک جس میں اردن، متحدہ عرب امارات، شام کا کچھ حصہ مصر اور سعودی عرب شامل ہو سکتا ہے۔ اس منصوبے پر یکم جولائی 2020ء سے عملدرامد کا کام شروع ہو جائے گا۔ جس بعد فلسطین میں صرف اسرئیل کا قبضہ ہو گا۔ یہ ایک شروعات ہے اس کا انجام ’’اسرئیل کی لا محدود ریاست کا قیام ہو گا۔ جس کا آغاز یکم جولائی 2020ء کرنے کی تمام تیاریوں کو آخری شکل دی جارہی ہے۔