• Newsletter
  • صفحہ اول
  • صفحہ اول2
منگل 18 نومبر 2025
  • Login
Roznama Quds | روزنامہ قدس
  • صفحہ اول
  • فلسطین
  • حماس
  • غزہ
  • پی ایل او
  • صیہونیزم
  • عالمی یوم القدس
  • عالمی خبریں
  • پاکستان
  • رپورٹس
  • مقالا جات
  • مکالمہ
No Result
View All Result
  • صفحہ اول
  • فلسطین
  • حماس
  • غزہ
  • پی ایل او
  • صیہونیزم
  • عالمی یوم القدس
  • عالمی خبریں
  • پاکستان
  • رپورٹس
  • مقالا جات
  • مکالمہ
No Result
View All Result
Roznama Quds | روزنامہ قدس
No Result
View All Result
Home خاص خبریں

امریکی مستقبل کا منصوبہ: امن یا فلسطینی حق خود ارادیت کی خلاف سازش؟

مزاحمتی دھڑوں کے مطابق یہ منصوبہ فلسطینی خودمختاری پر حملہ ہے۔

پیر 17-11-2025
in خاص خبریں, عالمی خبریں, غزہ
0
امریکی مستقبل کا منصوبہ: امن یا فلسطینی حق خود ارادیت کی خلاف سازش؟
0
SHARES
2
VIEWS

روزنامہ قدس ـ آنلائن خبر رساں ادارہ

اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل چند گھنٹوں میں امریکہ کے ترمیم شدہ مسودۂ قرار پر رائے شماری کرنے جا رہی ہے جس میں غزہ کے لیے ایک سیاسی اور سکیورٹی خاکہ پیش کیا گیا ہے۔ یہ خاکہ عملی طور پر غزہ کی نئی انجینئرنگ پر مبنی ہے جس کے تحت ایک وسیع اختیارات کی حامل بین الاقوامی عبوری انتظامیہ قائم کی جائے گی۔

اگرچہ مسودے میں چند محدود ترامیم شامل کی گئی ہیں جن میں جنگ بندی کے قیام پر زور، ریاست کے قیام کی راہ کا حوالہ اور امداد پر عائد پابندیوں میں نرمی کا ذکر شامل ہے، مگر ان میں سے کوئی بھی تبدیلی اُس بنیادی ڈھانچے کو نہیں چُھوتی جس کا مقصد غزہ کو ایک کثیرالجہتی پروگرام کے تحت کے تحت لانا ہے۔ ایسا نظام جو فلسطینی قوت و اختیار کو چھین کر غزہ کے مستقبل کو طویل المدتی سکیورٹی بندوبست سے وابستہ کر دے۔

مسودے کا مرکزی نکتہ ایک نام نہاد ’ امن کونسل‘ کا قیام ہے جو قانونی حیثیت اور وسیع انتظامی و حکومتی اختیارات رکھے گی۔ اسے عوامی امور چلانے، حکومتیں تشکیل دینے اور عدالتی نظام پر نگرانی کرنے کا مکمل اختیار دیا جائے گا۔ اسی کے ساتھ ایک بین الاقوامی وسیع التفویض فورس کے قیام کی تجویز ہے جس کا بنیادی کام غزہ کا سکیورٹی کنٹرول سنبھالنا اور فلسطینیوں کا اسلحہ ضبط کرنا ہوگا۔

اس مجوزہ نظام میں قابض اسرائیلی فوج کے انخلا کو ’’استحکام‘‘ سے مشروط کیا گیا ہے، جس کا مطلب یہ ہے کہ قابض اسرائیل پورے سکیورٹی منظرنامے میں مرکزی کردار برقرار رکھے گا۔

تجزیہ نگاروں کے مطابق یہ منصوبہ سامراجی طرز کی وہی پرانی بین الاقوامی منصوبہ بندی ہے جو قوموں کو اُن کی خود مختاری سے کاٹ دیتی ہے اور حقِ خودارادیت کو غیر معینہ مدت تک مؤخر کر دیتی ہے۔ یہ دراصل براہِ راست قبضے سے نکل کر عالمی وصایت میں داخل کرنے کا عمل ہے جو مکمل طور پر اسرائیلی مفادات سے ہم آہنگ ہے۔

عملاً یہ مسودہ فلسطینی قوم اور اس کی اداروں سے فیصلہ کن اختیار چھین لیتا ہے، غزہ اور مغربی کنارے کی جغرافیائی و سیاسی وحدت کو توڑتا ہے اور پوری فلسطینی مسئلے کو ایک ’’انتظامی فائل‘‘ میں بدل کر امریکی–اسرائیلی نگران عمل کے حوالے کر دیتا ہے۔

غزہ کی بین الاقوامی سطح پر حوالگی

تجزیہ نگار وسام عفیفہ کے مطابق یہ راستہ غزہ کو برسوں تک بین الاقوامی انتظام کے تحت رکھنے کا دروازہ کھولتا ہے۔ اس کے ذریعے بیرونی شرائط کے ساتھ فلسطینی اتھارٹی کی واپسی اور ریاست کے وعدے کو بنا کسی ٹائم فریم اور ضمانت کے ادھورا چھوڑ دیا جائے گا۔

وہ سوال اٹھاتے ہیں کہ اگر یہ پورا عمل فلسطینی قوم کی سیاسی قوت کو محدود کرنے، مزاحمت کے تمام اوزار چھین لینے اور قابض کو مستقبل کے تعین میں فیصلہ کن کردار دینے پر مبنی ہے تو پھر یہ راستہ فلسطینی انسان کی بہتری کیسے ثابت ہوسکتا ہے؟

ادھر سیاسی تجزیہ نگار ایاد القرا کے مطابق اس منصوبے کی بنیاد غزہ کو غیر مسلح کرنے پر ہے اور یہ سب کچھ ایک ’’انسانی مشن‘‘ کے نام پر کیا جا رہا ہے، جب کہ قابض اسرائیل کی طرف سے انخلا لازمی نہیں ہو گا۔ یہ کھلی کھلی سیاسی و سکیورٹی وصایت ہے۔

وہ کہتے ہیں کہ امریکی ترامیم محض ظاہری ہیں، جبکہ منصوبے کی اصل روح غزہ کو ایک انتظامی ’’قابلِ انتظام خطہ‘‘ کے طور پر دیکھتی ہے، نہ کہ ایک ایسی قوم کے حصے کے طور پر جو اپنے مستقبل پر مکمل حق رکھتی ہے۔ اس بنیادی سوال کو وہ دوبارہ اٹھاتے ہیں کہ ایسے عبوری نظام کیوں مسلط کیے جا رہے ہیں جنہوں نے تاریخ میں ہمیشہ قومی خودمختاری کو کمزور کیا ہے؟۔

سیاسی تجزیہ نگار محمد الحیلہ خطرات کی وضاحت میں مزید گہرائی لاتے ہیں۔ وہ بتاتے ہیں کہ یہ مسودہ درحقیقت امریکہ کی ایسی من مرضی کو جنم دیتا ہے جو بین الاقوامی لبادے میں چھپی ہوئی ہے۔ ٹونی بلیئر کی تجویز کردہ ’’امن کونسل‘‘ کا نمونہ برطانوی استبداد سے بھی سخت ہوگا جس کے پاس حکومتی تشکیل سے لے کر عدلیہ تک مکمل کنٹرول ہو گا۔

وہ مجوزہ بین الاقوامی فورس کو ’’نفاذ اور مداخلت‘‘ کی قوت قرار دیتے ہیں ’’امن کے تحفظ‘‘ کی نہیں۔ اس کا پہلا ہدف غزہ کا مکمل غیر مسلح کرنا ہے، یعنی قابض اسرائیلی مشن کو اس مرتبہ عرب اور مسلم ممالک کی فورسز کے ذریعے مکمل کرایا جائے۔

وہ مزید بتاتے ہیں کہ واشنگٹن، تل ابیب اور کچھ مغربی ممالک کے درمیان اختلاف صرف ’’نزاع‘‘ کی سطح پر ہے، اصولی طور پر نہیں۔

ایک اور خطرہ عرب دنیا کے اس مسودے کی جانب بڑھتے ہوئے نرم رویے میں ہے۔ آٹھ عرب و اسلامی ممالک نے اس کی حمایت کی ہے جبکہ فلسطینی اتھارٹی بھی ساتھ کھڑی ہوگئی ہے۔ اس سے چین اور روس کے لیے سلامتی کونسل میں اس مسودے کو روکنے کا دائرہ محدود ہو جاتا ہے۔

تجزیہ نگاروں کا خیال ہے کہ بیجنگ اور ماسکو ایسے عرب حمایت یافتہ مسودے کو گرانے کی سیاسی قیمت شاید نہ ادا کریں، اس لیے اس منصوبے کے منظور ہونے کا امکان حقیقت کے قریب ہو جاتا ہے۔

تمام نگاہیں اب الجزائر پر ٹکی ہیں جو سلامتی کونسل میں عرب گروپ کی نمائندگی کر رہا ہے۔ تجزیہ نگار الجزائر پر تاریخی ذمہ داری ڈال رہے ہیں کہ وہ غزہ کو ایسی بین الاقوامی ترتیب میں دھکیلنے سے روکے جو اس کے مستقبل کو محض ’’سکیورٹی‘‘ اور ’’غیر مسلح کرنے‘‘ کی شرطوں میں قید کر دے اور ریاست کے قیام کے مسئلے کو سنہ 2027 کے بعد تک کھلا چھوڑ دے۔

اب الجزائر کا امتحان یہ ہے کہ کیا وہ فلسطینی حقِ خودارادیت کے اصولی دفاع میں ٹھوس اور واضح مؤقف اختیار کرتا ہے، یا معاملہ ایک ایسے سیاسی راستے کی طرف پھسل جاتا ہے جو غزہ کی نئی انجینئرنگ اور طویل بین الاقوامی مرضی کی راہ ہموار کر دے اور قابض کو فیصلہ کن حیثیت میں برقرار رکھے؟۔

Tags: Free PalestineGaza under attackHuman rights violationIsraeli aggressionWar crimes in Gazaاسرائیلی قبضہعالمی یکجہتیغزہ میں نسل کشیفلسطینی مزاحمتمسجد اقصیٰ
ShareTweetSendSend

ٹوئیٹر پر فالو کریں

Follow @roznamaquds Tweets by roznamaquds

© 2019 Roznama Quds Developed By Team Roznama Quds.

Welcome Back!

Login to your account below

Forgotten Password?

Retrieve your password

Please enter your username or email address to reset your password.

Log In
No Result
View All Result
  • Newsletter
  • صفحہ اول
  • صفحہ اول2

© 2019 Roznama Quds Developed By Team Roznama Quds.