غزہ ۔ روزنامہ قدس ـ آنلائن خبر رساں ادارہ
کلب برائے اسیران کے میڈیا آفس نے تصدیق کی ہے کہ قیدی رہنما عبداللہ البرغوثی کو ان کے گرفتار ہونے کے بعد 5 مارچ سنہ 2003 ءسے جلبوع قیدخانہ میں جسمانی اور نفسیاتی تشدد کے سخت ترین ہتھکنڈوں کا سامنا ہے۔
کلب برائے اسیران نے ایک پریس ریلیز میں بتایا کہ 53 سالہ البرغوثی کے ساتھ روا رکھا جانے والا سلوک "سلو موت کی کوشش” کے مترادف ہے، جس کا مقصد قیدی رہنما کو کسی بھی لمحے شہید کرنا ہو سکتا ہے۔
بیان میں کہا گیا کہ قیدخانہ کی انتظامیہ البرغوثی کے ساتھ منظم اور بار بار زیادتیاں کر رہی ہے، جہاں قیدیوں کے ساتھ کتے بھی داخل کیے جاتے ہیں۔ رات دن ان کے کمرے میں داخل ہو کر ان سے کہا جاتا ہے کہ "ہم نے تمہیں مارنے کی شدت سے یاد کیا”، اس کے بعد تین قیدی انہیں لاٹھیاں مار کر زخمی کرتے ہیں، جس سے شدید خون بہتا ہے اور گہرے زخم ہوتے ہیں، جنہیں قیدی صرف پھٹے کپڑے اور سادہ صفائی کے مواد سے ہی ٹریٹ کر سکتے ہیں۔
پریس ریلیز میں یہ بھی کہا گیا کہ البرغوثی جنہیں 67 مرتبہ عمر قید کی سزا ک سامنا ہے اسرائیلی وزیر ایتمار بن گویر کی جانب سے قیدیوں کے قتل کے دھمکیوں کا براہِ راست عملی مظہر ہیں۔
گذشتہ پیر کو کنیسٹ کی عام اسمبلی نے قیدیوں کے قتل کے قانون کی پہلی ریڈنگ کی منظوری دی تھی اور اسے آخری ووٹنگ کے لیے متعلقہ پارلیمانی کمیٹی کو بھیج دیا گیا ہے۔
بیان میں مزید بتایا گیا کہ البرغوثی کو تین ماہ سے دائیں ہاتھ کے کہنی اور ہتھیلی میں شدید فریکچر ہیں، ساتھ ہی بائیں ہاتھ کی چھوٹی انگلی میں اور دائیں سینے کے آخری دو پسلیوں میں فریکچر موجود ہے، ہاتھ پر رسیوں کے پھٹنے کے زخم بھی ہیں اور بھوک اور ناقص خوراک کی وجہ سے ان کا وزن تقریباً 35 کلو کم ہو گیا ہے۔
کلب برائے اسیران نے بتایا کہ جلبوع انتظامیہ البرغوثی پر تشدد کے دوران ان کے جسم پر پانی ڈالتی ہے اور بجلی کے جھٹکے دیتی ہے، اس کے علاوہ انہیں جھریوں سے متاثرہ کمرے میں رکھا جاتا ہے، جس سے ان کے جسم پر دانے نکل آئے ہیں، باوجود اس کے کہ وہ زمین پر لیٹ کر بچنے کی کوشش کرتے ہیں۔
بیان میں مزید کہا گیا کہ البرغوثی اب اپنے ہاتھوں کو حرکت دینے میں شدید دشواری کا شکار ہیں، ایک ہاتھ تقریباً مکمل طور پر مفلوج ہو گیا ہے اور قابض جلاد اور قیدخانوں کی انتظامیہ نے انہیں علاج فراہم کیا، نہ معمولی درد کم کرنے والی دوا دی اور انسانی حقوق کی تنظیموں کو ان سے رابطہ کرنے سے روک دیا۔
کلب برائے اسیران نے واضح کیا کہ البرغوثی کے ساتھ روا رکھا جانے والا تشدد ایک کھلی جنگ کے دائرے میں آتا ہے، جس کا مقصد قیدی رہنماؤں کو نشانہ بنانا ہے اور اس تشدد کی شدت اس حد تک پہنچی ہے کہ یہ جان بوجھ کر قتل کی کوشش کے مترادف ہے، جس کے لیے فوری عالمی مداخلت ضروری ہے۔
بیان میں انسانی حقوق کی تنظیموں سے کہا گیا کہ وہ اپنی قانونی اور اخلاقی ذمہ داریاں ادا کریں، فوری طور پر قابض اسرائیل پر دباؤ ڈالیں کہ البرغوثی کے ساتھ تشدد بند ہو، علاج فراہم کیا جائے، اور جلبوع قیدخانہ میں ہونے والے جرائم کے ذمہ داران کو سزا دی جائے، کیونکہ البرغوثی کی زندگی حقیقی خطرے میں ہے۔
انسانی حقوق کی تنظیموں نے اس قانون کے خطرناک نتائج کی بھی وارننگ دی ہے، کیونکہ یہ قانون سابقہ گرفتاریوں پر بھی لاگو ہوگا، جو سنہ 2023ء کے بعد گرفتار کیے گئے سینکڑوں قیدیوں پر بھی اثر ڈال سکتا ہے، اور واضح کیا کہ اس قانون کا مقصد سزا دینے کے بجائے سیاسی انتقام اور مزاحمت کے رہنماؤں کو ختم کرنا ہے۔