جنیوا (روز نامہ قدس ۔آن لائن خبر رساں ادارہ) اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے ایک تحقیقات کار نے کہا ہے کہ اسرائیل لاکھوں فلسطینیوں کی صاف پانی تک رسائی میں مسلسل رکاوٹیں ڈال رہا ہے جبکہ ان کی معدنی دولت سے مالامال سرزمین کو غصب کررہا ہے۔
روز نامہ قدس کو موصول ہونے والی اطلاعات کے مطابق فلسطینی علاقوں میں متعیّن اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے لیے خصوصی نمائندے مائیکل لائنک نے کہا ہے کہ ’’اسرائیل نے دریائے اردن کے مغربی کنارے کے علاقے میں صیہونی بستیوں کو توسیع دینے کا سلسلہ پورے زور شور سے جاری رکھا ہوا ہے ۔اقوام متحدہ اور بہت سے ممالک اس فلسطینی علاقے میں صیہونی آباد کاری کو غیر قانونی قرار دیتے ہیں لیکن اس کے باوجود ہر سال بیس سے پچیس ہزار نئے صیہونی آبادکاروں کو اس علاقے میں لابسایا جاتا ہے‘‘۔
وہ جنیوا میں اقوام متحدہ کے تحت انسانی حقوق کونسل میں فلسطینی علاقوں میں انسانی حقوق کی صورت حال سے متعلق بحث میں حصہ لے رہے تھے۔انھوں نے اپنی گفتگو کے دوران میں اسرائیل کے خلاف سنگین الزامات عائد کیے ہیں۔جنیوا میں اسرائیلی مشن نے اس بحث کا بائیکاٹ کیا تھا۔اس نے مائیکل لائنک کے خلاف ایک تندوتیز بیان جاری کیا ہے اور اس میں ان پر الزام عائد کیا ہے کہ ’’وہ ایک معروف فلسطینی وکیل کی پہچان رکھتے ہیں‘‘۔
اس بیان میں کہا گیا ہے کہ ’’ مسٹر لائنک اپنی نئی ڈھونگ رپورٹ میں مزید گر گئے ہیں اور انھوں نے اسرائیلی ریاست پر چوری کا الزام عائد کردیا ہے۔ واضح رہے کہ اسرائیل کے پشتیبان امریکا نے گذشتہ سال انسانی حقوق کونسل کو یہ کہہ کر خیرباد کہہ دیا تھا کہ یہ فلسطین نواز اور اسرائیل مخالف ہے۔
اقوام متحدہ کے خصوصی نمائندے مائیکل لائنک نے کونسل سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ’’غزہ پٹی میں پینے کے پانی کی بہم رسانی کا قدرتی ذریعہ ختم ہوچکا ہے۔اب وہاں دستیاب پانی انسانی صحت کے لیے مُضر ہے۔اسی وجہ سے محاصرہ زدہ غزہ کی پٹی میں رہنے والے بیس لاکھ فلسطینیوں کے لیے صحت کے نت روز مسائل پیدا ہورہے ہیں‘‘۔
انھوں نے کہا کہ ’’اسرائیل نے 2005ء میں غزہ کو خالی کردیا تھا، وہاں قائم صیہونی بستیوں کا خاتمہ کردیا تھا اور اپنے فوجیوں کو واپس بلا لیا تھا لیکن اس نے اس ساحلی پٹی کی 2007ء سے فضائی ، برّی اور بحری ناکہ بندی کررکھی ہے‘‘۔
’’تقریباً پچاس لاکھ فلسطینی (اسرائیلی) قبضے میں رہ رہے ہیں۔ان کا آب رسانی کا نظام ناکارہ ہوچکا ہے ،ان کے قدرتی وسائل سے تو بھرپور فائدہ اُٹھایا جارہا ہے مگر ان کے ماحول کو نقصان پہنچایا جارہا ہے۔ان سب سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ ان فلسطینیوں کا اپنی روزمرہ کی زندگیوں پر کوئی معنی خیز کنٹرول نہیں ہے’’۔
مائیکل لائنک نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے انکشاف کیا کہ ’’ غربِ اردن میں اسرائیلی کمپنیاں ہر سال ایک کروڑ 70 لاکھ ٹن قیمتی پتھر نکالتی ہیں ۔بین الاقوامی قانون میں ایک فوجی قوت کو اس طرح کی کارروائیوں باز رکھا گیا ہے اور و ہ اپنے مقبوضہ علاقوں میں فوجی طاقت کے بل پر معاشی فوائد حاصل نہیں کرسکتی مگر اسرائیلی فوج نے اس کے باوجود ایسا سلسلہ جاری رکھا ہوا ہے‘‘۔
انھوں نے کہا کہ ’’مقبوضہ فلسطینی علاقوں میں واقع بحیرہ مردار اور اس کے قدرتی وسائل تک فلسطینیوں کو تو کوئی رسائی نہیں ہے مگر اسرائیلی کمپنیوں کو وہاں سے معدنیات نکالنے کی کھلی اجازت ہے اور یہ فلسطینیوں کے وسائل کی کھلم کھلا لوٹ مار ہے‘‘۔
فلسطینی سفیر ابراہیم قریشی نے اسرائیل سے مطالبہ کیا ہے کہ’’ وہ فلسطینی املاک کی لوٹ مار کا سلسلہ بند کردے۔ اسرائیل مقبوضہ فلسطینی علاقوں میں جو کچھ کررہا ہے ،وہ بین الاقوامی قانون اور معاہدوں کے تحت اس کی ذمے داریوں سے بالکل متصادم اقدام ہے اور یہ تو ایک طرح سے نسل کشی سے بھی بڑھ کر جرم ہے‘‘۔